ذوہران کوامے ممدانی سے ٹرمپ اور فرقہ پرست پریشان کیوں ؟

   

محمد ریاض احمد
آج کل دنیا بھر میں جہاں ایران ۔ اسرائیل جنگ اور پھر دونوں کے درمیان جنگ بندی کے ساتھ ساتھ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ، ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای اور معصوم و بے قصور فلسطینیوں کے قاتل اور ان کے جنگی مجرم نیتن یاہو کے چرچے عام ہیں وہیں ایک 33 سالہ ہندوستانی نژاد امریکی نوجوان بھی عالمی سطح پر موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔ خاص طورپر امریکہ اور ہندوستان میں اس کے بارے میں سیاستدانوں سے لیکر عام لوگ اور میڈیا ہر کوئی اپنی اپنی سوچ و فکر اور صلاحیتوں کے مطابق تبصرے کرنے میں مصروف ہے ۔ ہم بات کررہے ہیں نیویارک سٹی کے متوقع میئر ذوہران ممدانی کی جہاں تک ہم نے اُنھیں نیویارک سٹی کا متوقع میئر قرار دیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نیویارک سٹی عہدہ میئر کیلئے انھوں نے ڈیموکریٹک پرائمری میں شاندار کامیابی حاصل کی اور اب وہ 4 نومبر کو ہونے والے میئر انتخابات میں ڈیموکریٹک امیدوار ہیں۔ انھوں نے ڈیموکریٹک پرائمری میں 4,32,305 ووٹ (43.5%) ووٹ حاصل کرکے نیویارک کے سابق گورنر اینڈریو کیومو جیسے طاقتور و بااثر امیدوار کو شکست دیدی ۔ اینڈریو کیومو کو صرف 3,61,840 (36.4 فیصد ) ووٹ حاصل ہوئے ایک اور امیدوار براڈلینڈ نے 1,12,349 (11.3 فیصد ) ، ایڈرینے اڈمس نے 40,953 ( 4.1 فیصد ) ووٹ اور دوسرے امیدواروں نے 46099 ( 4.6 فیصد ) ووٹس حاصل کرسکے ۔ اب 4 نومبر کے میئر الیکشن میں اُن کامقابلہ ریپبلکن امیدوار کرئس سلیوا اور موجودہ میئر ERIC ADAMS سے ہوگا جو آزاد امیدوار کی حیثیت سے مقابلہ کررہے ہیں ۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کیومو بھی آزاد امیدوار کے طورپر حصہ لے سکتے ہیں جس کے بعد ذوہران ممدانی کے کامیابی کے امکانات روشن ہوگئے ہیں ۔
جہاں تک ذوہران کوامے ممدانی کی شخصیت اور اُن کے خاندانی و سیاسی پس منظر کا سوال ہے اس بارے میں جاننے کیلئے لوگوں میں بہت زیادہ تجسس پایا جاتا ہے ۔ یہاں اس بات کاتذکرہ ضروری ہوگا کہ 18 اکٹوبر 1991 ء کو یوگانڈا کے کمپالا میں گجرات سے تعلق رکھنے والے محمود ممدانی اور روڑکیلا اڑیسہ (اوڈیشہ ) سے تعلق رکھنے والی میرا نائر کے گھر ہوئی ۔ ذوہران کے والد محمود ممدانی نے اپنے بیٹے کا نام ذوہران کوامے ممدانی رکھا اور دلچسپی کی بات یہ ہیکہ محمود ممدانی گھانا کے پہلے صدر KWAME NKRUMAH سے کافی متاثر تھے اور اپنے فرزند کے درمیانی نام سے اُن کانام منتخب کیا اس طرح ذوہران کوامے ممدانی کے نام سے آج شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے ہیں۔ ان کے ماں باپ محمود ممدانی اور میرا نائر کی ملاقات 1988 ء میں اس وقت ہوئی جب محمود کولمبیا یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے ۔ 33 سالہ ممدانی آج ہر کسی کی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ان پر تنقیدی حملے کرنے لگے ہیں ۔ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ نیویارک میئر کے امیدوار ممدانی کمیونسٹ ہیں ٹرمپ کے مطابق ممدانی 100%کمیونسٹ جنونی ہیں اس سلسلہ میں انھوں نے اپنے ٹروتھ سوشل پوسٹ پر ایک بیان پوسٹ کیا ہے ۔
امریکہ میں ممدانی کو یہودی دشمن اور فلسطینیوں کے حامی کی حیثیت سے دیکھنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے ہمیشہ حق بات اور سچ بات کی ہے ۔ درندگی کی مخالفت انسانیت کی وکالت اور بلا لحاظ مذہب و ملت رنگ و نسل امریکیوں کی خدمات کو اپنا نصب العین بنایا ہے۔ اسرائیل کے سخت ناقد سمجھے جانے والے ذوہران ممدانی نے ببانگ دل یہ کہا ہے کہ اسرائیل قتل عام جیسے جرم کا ارتکاب کررہا ہے ۔وہ اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ ، ڈائیوسٹمنٹ اور سیکشن ( پابندیوں ) سے متعلق (BDS) تحریک کے بھی کٹر حامی ہیں ۔ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں اُن کا کہنا تھا کہ میری سیاست عدم تشدد کی حامی ہے ۔ جب اُن سے یہ پوچھا گیا کہ اگر وہ امریکہ کی سب سے بڑی سٹی یعنی نیویارک سٹی کے میئر منتخب ہوتے ہیں اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نیویارک کا دورہ کرتے ہیں و وہ کیا کریں گے ؟
ممدانی نے بنا کسی توقف کے جواب دیا کہ میئر نیویارک کی حیثیت سے میں نیتن یاہوں کو گرفتار کرواؤں گا ، اُن کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے انتفادہ کو عالمیانے Globalize the Intifada کے نعرہ سے بھی خود کو الگ کرنے سے انکار کردیا جس کے نتیجہ میں اُنھیں یہودی مخالف کہا جارہا ہے ۔ آپ کو بتادیں کہ ممدانی کی انتخابی مہم میں 22 ہزار سے زائد والینٹرس مصرو ف ہیں آپ کو یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ ممدانی سوشل میڈیا خاص کر انسٹاگرام پر بہت سرگرم ہیں۔ انسٹاگرام پر اُن کے 1.7 ملین فالوورس ہیں جبکہ وہ 752 لوگوں کو فالو کرتے ہیں ۔ ایکس پر ان کے فالوورس کی تعداد 433.7 ہزار ہے۔ واضح رہے کہ ممدانی 2021 ء سے نیویارک اسمبلی میں 36 ویں ڈسٹرکٹ کوئس لینڈ کی نمائندگی کررہے ہیں وہ ڈیموکریٹک پارٹی اور ڈیموکریٹک سوشلسٹس آف امریکہ کے رکن ہیں ۔
2020 ء میں وہ نیویارک اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے اور 4 مرتبہ کے رکن رہے ARAVELLA SIMOTAS کو شکست دی اور تب سے مسلسل منتخب ہوتے آرہے ہیں ۔ اُن کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گجرات فسادات اور وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف شدید تنقیدیں بھی کی اور ہندوستان میں اقلیتوں پر ہورہے مظالم کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں حصہ بھی لیا ۔ حال ہی میں بی جے پی کی منہ پھٹ رکن پارلیمنٹ کنگنا رناوت نے جن کے بارے میں اکثر ناقدین یہ کہتے ہیں کہ سوچتی کم بولتی زیادہ ہیں ممدانی پر تنقید کی اور کہاکہ وہ ہندوستان سے زیادہ پاکستانی ہندو مخالف اور موافق پاکستان دکھائی دیتے ہیں ۔
جہاں تک ممدانی کی ماں میرا نائر کا سوال ہے وہ بھی فلسطینیوں پر اسرائیلی درندگی کی سخت مخالف ہیں۔ 2013 ء میں میرا نائر کو حیفہ انٹرنیشنل فلم فیسٹول میں بطور مہمان اعزازی مدعو کیا گیا تھا لیکن انھوں نے بطور احتجاج اس فیسٹول میں شرکت سے انکار کردیا تھا ۔ میرانائر کا اس وقت کہنا تھا میں اسرائیل اس وقت تک نہیں جاؤں گی جب تک فلسطین پر اس کا قبضہ برخواست نہیں کیا جاتا ۔ میں اسرائیل اس وقت جاؤں گی جب وہاں فلسطینیوں کے ساتھ نسلی امتیاز ختم ہوگا اور میں اسرائیل کے تعلیمی و تہذیبی اور ثقافتی بائیکاٹ کیلئے فلسطینیوں کے ساتھ کھڑی ہوں ۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ میرا نائر کو 2007 ء میں Indian Abroad Person ایوارڈ عطا کیا گیا ۔ 2012 ء میں صدرجمہوریہ پرتیبھا پاٹل نے اُنھیں پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا ۔ وہ شارٹ فلمز ، دستاویزی فلمز بنانے میں عالمی سطح پر شہرت رکھتی ہیں ۔ ان کی فلم سلام ممبئی کو اکیڈیمی ایوارڈ فار بسٹ فارن لینگویج فلم BAFTA ایوارڈ فار بسٹ فلم گولڈن گلوب ایوارڈ فار بسٹ فارن لینگویج فلم اور فلم فیر ایوارڈ فار بیسٹ ڈائرکٹر ـْکیلئے نامزد کیا گیا ۔ انھیں کم از کم 20 فلموں کیلئے ایوارڈس حاصل ہوئے ۔
میرا نائر فلم پروڈکشن کمپنی میرابائی فلمیں چلاتی ہیں ان کی مشہور فلموں میں مسی سپی مسالہ ، دی نیم سیک اور سلام بمبئی شامل ہیں۔ روڑکیلا اڑیسہ ( اوڈیشہ ) میں ان کی پیدائش ہوئی وہ بھوبنیشور میں بڑی ہوئی اُن کے والد امرت لال سنگھ نائر انڈین اڈمنسٹریٹیو سرویس کے ایک عہدیدار تھے جبکہ ماں پراوین نائر ایک سوشل ورکر تھیں ۔
آپ کو بتادیں کہ ممدانی نے 2015 ء میں 23ویں ڈسٹرکٹ کے اسپیشل الیکشن میں علی نجمی کی انتخابی مہم میں ایک والینٹر کے طورپر شمولیت اختیار کی تھی ۔ 2017 ء میں وہ DSA میں شامل ہوئے اور نیویارک سٹی کونسل کے امیدوار قادر الیثیم کی مہم میں سرگرم حصہ لیا ۔ 2018 ء میں ROSS BARKAN کی انتخابی مہم کے منیجر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں جب وہ نیویارک اسٹیٹ سنیٹ کے رکن بننے کی کوشش کررہ تھے ۔ ممدانی کی شادی شامی نژاد آرٹسٹ RAMA DWAJI سے جاریہ سال کے اوائل میں ہوئی ۔ بہرحال ذو زہران ممدانی فری سٹی بسیں ، پبلک چائلڈ کیر ، نیویارک سٹی کی ملکیت والے گراسری اسٹورس اور سوشیل ہاؤزنگ یونٹس کے وعدے کئے ہیں اور نیویارک سٹی کے عوام اُن کی بھرپور تائید کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ ممدانی کیلئے سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اُنھیں برنی سینڈرس اور الیگزینڈرا کاہو کارٹیز جیسی اہم سیاسی شخصیتوں کی تائید و حمایت حاصل ہے ۔