کنال پروہت
ہندوستان نے فرانس سے 36 رافل لڑاکا طیاروں کی خریدی کیلئے 59,000 کروڑ روپئے کا جو معاہدہ کیا ہے، پریشانیوں کا باعث مشتبہ معاہدہ بن گیا ہے اور اس کے جو شرائط ہیں، وہ یقینا ہندوستانی فضائیہ کیلئے نقصان دہ ہیں۔ یہ شیرپا نامی اس غیرسرکاری تنظیم کا خیال ہے جو ماہرین پر مشتمل ہے اور جو عالمی سطح پر دولت کے غیرقانونی بہاؤ کا پتہ چلاتی ہے اور رافل معاملت سے متعلق اس کی تحقیقات سے جو حقائق برآمد ہوئے ان ہی حقائق کی بنیاد پر فرانس میں ایک عدالتی تحقیقات شروع کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ ہندوستان نے فرانسیسی کمپنی ڈسالٹ ایوی ایشین سے 59 ہزار کروڑ روپئے (7.5 ارب یوروز) کی ایک معاملت کی اور فی الوقت یہ معاملت متنازعہ بن گئی ہے، اس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ عالمی سطح پر ایک منظم پیمانے پر کی گئی اور کی جارہی بدعنوانی کا یہ شکار ہوئی ہے۔ اس معاملت کی شرائط بھی ہندوستان کے بہتر مفاد میں نہیں بلکہ ہندوستانی فضائیہ کے دقیانوسی آلات حربی کی تجدید یہ کیلئے بھی یہ نقصان دہ ہے۔ اس معاملت میں کہا جاتا ہے کہ بدعنوانیوں کا ارتکاب کیا گیا۔ مثال کے طو رپر فرانس کی ایک غیرسرکاری تنظیم نے شکایت کی تھی کہ ہندوستان اور ڈسالٹ ایوی ایشین کے درمیان طئے پائے معاہدہ یا معاملت میں بدعنوانیوں کا ارتکاب کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فرانس میں ساری معاملت کی آزادانہ عدالتی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ SHERPA پیرس سے کام کرتی ہے اور وہ 2018ء سے اس کیس کو آگے بڑھا رہی ہے، اس نے 2018ء میں ڈسالٹ ایوی ایشین کے خلاف فرانس کے قومی فینانشیل پراسیکیوٹر سے رجوع ہوکر شکایت درج کروائی تھی اور اپنی شکایت میں کہا تھا کہ ہندوستان کے ساتھ رافل لڑاکا طیاروں کی سربراہی سے متعلق معاہدہ میں بدعنوانی کی گئی ہے۔ بعد میں Sherpa نے اپریل 2021ء میں فرانس کے قومی پراسیکیوٹر سے ایک تازہ شکایت درج کروائی جس کے بعد پراسیکیوٹر نے معاہدہ کی تحقیقات کیلئے ایک جج کا تقرر کیا۔ اپنی شکایت میں Sherpa نے ہندوستان کے ساتھ طئے پائے معاہدہ میں مبینہ کرپشن، اقرباء پروری جانبداری اور مختلف مالی جرائم کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
شیرپا کے وکالتی و تنازعات سے نمٹنے والے عہدیدار کا دو سیشنس میں ای۔میل کے ذریعہ انٹرویو لیا گیا۔ یہ عہدیدار رقم کے غیرقانونی بہاؤ جیسے واقعات سے نمٹتے ہیں چنانچہ شیرپا کی عہدیدار چانپر مینوسس نے آرٹیکل 14 کو بتایا کہ معاملت کے پریشان کن حقائق میں سب سے اہم یہ ہے کہ معاملت کے آخری لمحات میں اچانک درمیانی شخص یا معاملت کروانے والے ادارے کو بدل دیا گیا، ساتھ ہی ہندوستان میں اپوزیشن اور میڈیا نے رافل معاملت میں بدعنوانی اقرباء پروری کے الزامات عائد کئے جس کے نتیجہ میں ہی سارے معاملہ کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا گیا اور شیرپا نے اس کیس کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا کیونکہ اسے پتہ تھا کہ اس معاملت کے ذریعہ ایسے فریق (درمیانی شخص) کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے جس کا وہ مستحق نہیں۔ شیرپا کو اس بات پر حیرت تھی کہ 80 سالہ ایک قدیم قومی کمپنی ہندوستان ایرونا ٹکس لمیٹیڈ جیسے تاریخی آپریٹر کو ایک طرف کردیا گیا اور اس کے مقام پر ریلائنس گروپ کو لایا گیا جسے ایرونا ٹیکل شعبہ میں کسی قسم کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور ریلائنس کے بارے میں سب سے اہم بات یہ تھی کہ وہ معاشی مشکلات کا سامنا کررہی تھی، اس کے علاوہ ریلائنس اس شخص کی ملکیت ہے جو ہندوستانی وزیراعظم کے بہت قریبی سمجھا جاتا ہے۔ یہ تمام باتیں اس قسم کے مقدمات لڑنے والے فرانسیسی وکیل Mensous نے بتائی۔
جہاں تک شیرپا غیرسرکاری تنظیم کا سوال ہے، یہ تقریباً دو دہوں سے کام کررہی ہے اور اس سے ایسے قانونی ماہرین وابستہ ہیں جو عالمی سطح پر اقتصادی جرائم اور غیرقانونی معاشی بہاؤ کا پتہ چلاتے ہیں۔ یہ ایسی تنظیم ہے جسے اپنے مشن میں اکثر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس نے بے شمار اہم مقدمات جیتے ہیں۔ شیرپا کیلئے خانگی عطیہ دہندگان اور سوئٹزرلینڈ کی ایک فاؤنڈیشن مالیہ فراہم کرتی ہے، اس فاؤنڈیشن کا نام چارلس لیوپولڈ مائر فاؤنڈیشن فار ہیومن کائنڈ (FPH) ہے جو سارے یوروپ میں چلائی جانے والی مہذب سماج کی تحریکوں کیلئے مالیہ فراہم کرتی ہے۔ مثال کے طور پر 2020ء میں شام کے سابق نائب صدر رفعت الاسد کو منی لانڈرنگ کے الزامات میں پیرس کی ایک عدالت نے چار سال قید کی سزا سنائی۔ اس کیلئے شیرپا نے 6 سال طویل مہم چلائی تھی۔ سال 2018ء میں پیرس کی ایک عدالت نے فرانس کی بڑی کمپنیوں میں سے ایک سیمنٹ میجر لقارجے کو ایک مقدمہ میں ماخوذ کیا۔ اس پر دہشت گرد نیٹ ورکس کو مالیہ فراہم کرنے کے الزامات عائد کئے گئے تھے۔ شیرپا نے لقارجے کے ملازمین کی جانب سے اس گروپ کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا اور دو برسوں تک یہ مقدمہ چلتا رہا۔ اب شیرپا نے اپنی توجہ ہندوستان کی نریندر مودی حکومت اور ڈسالٹ ایوی ایشین کے درمیان 36 رافیل لڑاکا طیاروں کی خرید و فروخت سے متعلق طئے پائے معاہدہ پر مرکوز کردی ہے۔ اس معاہدہ پر 2015ء میں دستخط کی گئی تھی۔
یہ معاملت ابتداء ہی سے تنازعات کا شکار رہی جس وقت ڈسالٹ نے سرکاری HAL کی بجائے ریلائنس ڈیفنس کا اپنا مقامی مینوفیکچرنگ پارٹنر کی حیثیت سے انتخاب کیا۔ ایک فرانسیسی تحقیقاتی ویب سائٹ میڈیا پارٹ نے ستمبر 2018ء میں ایک رپورٹ شائع کی جس میں اس نے لکھا تھا کہ ریلائنس ڈیفنس صرف معاہدہ سے 12 دن قبل ہی وجود میں آئی اور اسے لڑاکا طیارے تیار کرنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ بہرحال اکتوبر 2018ء میں میڈیا پارٹ کو اس کی تحقیقات کے دوران ڈسالٹ کے داخلی دستاویزات تک رسائی حاصل ہوئی جس میں انیل امبانی کی فرم ریلائنس ڈیفنس کو دیئے گئے کنٹراکٹ کو ایک ایسا معاوضہ قرار یا گیا جو واحد اور لازمی ہے، اگر وہ رافیل لڑاکا طیاروں کا آرڈر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ہندوستانی اپوزیشن خاص طور پر سابق صدر کانگریس راہول گاندھی نے الزام عائد کیا کہ یہ معاملت کرپشن کا واضح کیس ہے اور یہ رشوت کنٹراکٹ میں لی گئی راہول گاندھی نے رافیل معاملت کی تحقیقات کیلئے ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعہ تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا۔ تاہم وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے معاملت میں کسی بھی قسم کی بدعنوانی کی تردید کی اور تحقیقات کرانے کا مطالبہ مسترد کردیا۔ 2018ء میں پارلیمنٹ اجلاس کے دوران اپنے خطاب میں مودی نے رافل لڑاکا طیاروں کی معاملت کو خانگی کمپنیوں کے درمیان نہیں بلکہ دو ملکوں کے درمیان معاہدہ قرار دیا۔ اس معاہدہ جس میں مکمل شفافیت کا مظاہرہ کیا گیا۔ Mensous کا کہنا تھا کہ مودی کا ردعمل بالکلیہ طور پر قابل فہم نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس میں حکومت معاہدہ ایک فریم ورک تھا جس نے دو خانگی اداروں کے درمیان معاملت کو ممکن بنایا، ورنہ ڈسالٹ ایوی ایشن اور ریلائنس کے تجارتی تعلقات کا ثبوت ختم ہوجاتا۔ یہ معاملت اس لئے بھی تنازعات کا شکار ہوئی کیونکہ 2012ء جو حقیقی رافل منصوبے تھے، ان منصوبوں کو بھی تبدیل کیا گیا۔ ہندوستان نے دراصل 126 لڑاکا طیاروں کیلئے بولیاں طلب کی تھیں جن میں سے 108 لڑاکا طیارے ہندوستان میں Assembled ہونے تھے اور HAL اسے اَسمبل کروانے والی تھی، لیکن مودی حکومت نے ان بولیوں (ٹنڈرس) کو منسوخ کردیا اور تازہ ٹنڈرس جاری کئے بناء ڈسالٹ کو 36 لڑاکا طیاروں کی تیاری کا کنٹراکٹ دے دیا اور یہ تمام کے تمام طیارے فرانس میں بنائے جانے والے ہیں۔ اس طرح قیمتیں بھی پہلے کی قیمتوں سے 300% زیادہ مقررکی گئیں۔ MENSOUS نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ نئی معاملت ہندوستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ بہرحال شیرپا جیسی عالمی تنظیم رافل معاملت میں ہوئی بے قاعدگیوں کو بے نقاب کرے اور خاطیوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انیل امبانی کی ریلائنس ڈیفنس کو ڈسالٹ کا مقامی پارٹنر کیوں بنایا گیا۔ HAL کو اس کام سے کیوں ہٹایا گیا اور کس کے اشارے پر ہٹایا گیا۔ شیرپا ان تمام حقائق کو منظر عام پر لائے گی لیکن ہوسکتا ہے کہ اس کیلئے کچھ برس درکار ہوں گے۔