مودی کی اشتعال انگیزی … شکست کا خوف
فرقہ وارانہ مہم پرپرینکا گاندھی کا کرارا جواب
رشیدالدین
’’میں نریندر دامودر داس مودی ایشور کی شپتھ لیتا ہوں‘‘ 30 مئی 2019 ء کو ہندوستان کے 16 ویں وزیراعظم کی حیثیت سے حلف لیتے ہوئے نریندر مودی نے ایشور یعنی خدا کی قسم کھائی تھی۔ قسم آخر کس بات کی ؟ ہندو راشٹر اور ہندوتوا ایجنڈہ کے حق میں یہ قسم نہیں تھی بلکہ دستور ہند سے وفاداری ، ملک کے اتحاد اور سالمیت کی برقراری کیلئے مودی نے 140 کروڑ ہندوستانیوں کو گواہ رکھتے ہوئے قسم کھائی تھی۔ نریندر مودی نے دو مرتبہ ایشور کی قسم کھائی اور اس بات کا حلف لیا کہ وہ خوف اور جانبداری یا نفرت کے بغیر ملک کے ہر شہری کے ساتھ مساوی انصاف کریں گے ۔ دنیا کے سامنے جب کوئی بھگوان کی قسم کھا کر عہد کرے تو عوام بھروسہ کرتے ہیں کہ وہ شخص قسم اور حلف کی پاسداری کرے گا۔2014 ء میں پہلی مرتبہ مودی نے یہی قسم کھائی تھی لیکن 5 برسوں میں قسم کو کس طرح پامال کیا گیا عوام اچھی طرح جانتے ہیں۔ 2019 ء میں جملہ بازی کے سہارے دوبارہ اقتدار حاصل کر نے کے بعد مودی نے دوسری مرتبہ عوام سے قسم کھاکر وعدہ کیا کہ وہ دستور ہند کے پابند رہیں گے لیکن دوسری میعاد میں دستور کی دھجیاں اڑادی گئیں۔ کسی میں یہ ہمت نہیں کہ مودی سے سوال کرسکیں لیکن جمہوریت میں حقیقی بادشاہ گر رائے دہندے ہوتے ہیں جو الیکشن میں اپنے ووٹ کے ذریعہ مودی سے قسم کا بدلہ ضرور لیں گے۔ ہندوستان کی تاریخ کے 14 وزرائے اعظم نے ہوسکتا ہے کہ اپنی قسم کی پاسداری مکمل طور پر نہیں کی اور ان سے بھی بعض کوتاہیاں سرزد ہوئی ہوں گی۔ ملک کے اتحاد اور سالمیت کے تحفظ اور ہر شہری کے ساتھ مساوی انصاف کے معاملہ میں دانستہ یا نادانستہ بھول چوک ضرور ہوئی ہوگی لیکن نریندر مودی نے دستور کی پاسداری کی قسم کو کئی بار توڑا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی کہ دستور پر کاربند رہنے کا حلف لینے والے ملک کے اتحاد و سالمیت کی برقراری کے بجائے اسے نقصان پہنچانے کے در پہ ہیں۔ دراصل ہندوستان میں حلف برداری اور قسم ایک رسم بن چکی ہے اور خلاف ورزی پر باز پرس کرنے کیلئے کوئی مشنری نہیں ہے جس کے نتیجہ میں نریندر مودی جیسے قائدین من مانی پر اتر آئے ہیں۔ نریندر مودی کے پاس دستور کا کوئی پاس و لحاظ نہیں، یہ تو ثابت ہوگیا لیکن بھگوان کا احترام بھی انہیں ملحوظ نہیں جس کا ثبوت ان کی حالیہ تقاریر ہیں جن میں زبان سے مٹھاس نہیں بلکہ آگ اگل رہے ہیں۔ خود کو رام کا اوتار قرار دینے والے مودی نے آخر کس ایشور کے نام پر حلف لیا تھا اس کی وضاحت ضروری ہے۔ جس شخص کے پاس بھگوان کے نام پر کھائی گئی قسم کی اہمیت نہیں ہے ، تو ایسے شخص سے انصاف کی توقع کرنا فضول ہے۔ جمہوریت میں ہار اور جیت ایک جاری عمل ہے اور دنیا میں کسی کی حکومت اور اقتدار مستقل نہیں رہا۔ ہر عروج کو زوال قانونی فطرت ہے لیکن جب قائدین خود کو ڈکٹیٹر کے طور پر تیار کرلیں تو پھر ان کی بدترین رسوائی کا انتظار کرنا چاہئے۔ نریندر مودی نے اقتدار کے لئے ملک کے اتحاد اور سالمیت کو داؤ پر لگادیا ہے ۔ ایک طرف سب کا ساتھ سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس کا نعرہ ہے تو دوسری طرف مودی کی نظر میں مسلمانوں کا ملک کے اثاثہ جات پر کوئی حق نہیں۔ نریندر مودی نے مسلم نوجوانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں لیاپ ٹاپ کا وعدہ کیا تھا لیکن مسلم طلبہ کی اسکالرشپ اور فیلو شپ ختم کردی گئی۔ مودی نے کہا تھا کہ ملک میں غذا اور لباس پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن مسلمانوں پر دراندازی اور دہشت گردی کا لیبل لگادیا گیا۔ دستور پر حلف لینے والے وزیراعظم نے یہاں تک کہا کہ ڈاکٹر امبیڈکر بھی آجائیں تو دستور تبدیل نہیں کرپائیں گے لیکن انتخابی ریالیوں میں مسلمانوں کو دستوری حقوق سے محروم کرنے کا اعلان کیا جارہا ہے۔ اقتدار ہی سب کچھ نہیں ، حقیقی حکمرانی تو عوام کے دلوں پر ہونی چاہئے ۔ انتخابات میں حکومت کے کارنامہ اور اپوزیشن کی ناکامیاں بیان کی جاتی ہیں لیکن وزیراعظم نے مسلمانوں کے بارے میں جو زہر افشانی کی ہے، وہ شائد کوئی گلی لیڈر بھی کہنے میں شرم محسوس کرے گا۔ کانگریس کے انتخابی دستور کی غلط ترجمانی کرتے ہوئے ہندو اکثریت کو ڈرانے کی کوشش کی گئی کہ کانگریس پارٹی ہندوؤں کے اثاثہ جات حتیٰ کہ چاندی اور سونا بھی چھین کر مسلمانوں میں تقسیم کردے گی ۔ کل تک مسلمانوں کو ان کے لباس کے حوالے سے مودی نے نشانہ بنایا تھا لیکن اب مسلمانوں کے زائد بچے انہیں کھٹک رہے ہیں۔ مسلمانوں کے کثیر العیال ہونے پر طعنہ دینے سے قبل مودی اپنے 6 بھائیوں کو یاد کرلیں ۔ مودی کے وزیر باتدبیر امیت شاہ کی 6 بہنیں ہیں۔ جب بھائی اور 6 بہن والے اقتدار پر راج کرسکتے ہیں تو پھر مسلمانوں کو دستوری حقوق پر اعتراض کیوں ؟ مسلمانوں کے بچوں پر نظر رکھنے کے بجائے نریندر مودی پہلے بی جے پی قائدین اور اپنے ساتھیوں کے بچوں کی تعداد کا پتہ چلائیں۔
لوک سبھا چناؤ کے دو مراحل مکمل ہوچکے ہیں اور دوسرے مرحلہ کی رائے دہی کے بعد بھی بی جے پی کیمپ میں کوئی اچھی خبر اور خوشی دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔ بی جے پی کیمپ کے موسم کا اندازہ گودی میڈیا کے چیانلس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ پہلے اور دوسرے مرحلہ کی رائے دہی کے دوران مودی کے چاٹوکار اینکرس چیخ چیخ کر رائے دہندوں کی شکایت کر رہے تھے کہ ان میں پولنگ کو لے کر کوئی جوش و خروش نہیں ہے۔ مودی کی دن رات واہ واہی کرنے والے اینکرس کی ناراضگی اس بات پر نہیں کہ رائے دہی کا فیصد کم ہے بلکہ وہ حقیقت میں ناراض اس لئے ہیں کہ رائے دہندوں نے مودی کے خلاف اپنا فیصلہ دیا ہے۔ کئی قومی نیوز چیانلس کے اینکرس کو رائے دہی والے علاقوں میں گھوم کر مودی اور بی جے پی کے حق میں مہم چلاتے ہوئے دیکھا گیا۔ گودی اینکرس کی برہمی اس لئے بھی بجا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کی دن رات محنت پر پانی پھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایک طرف گودی میڈیا پریشان ہے تو دوسری طرف نریندر مودی اپنی بوکھلاہٹ اور برہمی کا انتخابی ریالیوں میں اظہار کر رہے ہیں۔ پہلے مرحلہ کی انتخابی مہم میں بی جے پی نے مودی ضمانتوں کے نام پر عوام سے کئی انتخابی وعدے کئے اور مودی گیارنٹی کو بی جے پی کی تیسری مرتبہ اقتدار میں واپسی کی گیارنٹی سمجھا گیا ۔ جیسے جیسے رائے دہی کے مراحل گزر رہے ہیں ، بی جے پی کی مایوسی میں اضافہ ہورہا ہے۔ مایوسی میں اضافہ کے ساتھ ہی نریندر مودی اشتعال انگیزی پر اتر آئے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے پانچ مرحلوں میں نریندر مودی اینڈ کمپنی کی اشتعال انگیزی جارحانہ رخ اختیار کرلے گی ۔ فی الوقت زبانی طور پر اشتعال انگیزی کا سلسلہ جاری ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہندوستان میں حالات بگاڑنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو بآسانی مذہب کے نام پر تقسیم کردیا جائے اور ہندو ووٹ بینک بی جے پی کی طرف منتقل ہوجائیں۔ ملک کے باوقار عہدہ پر فائز شخصیت کے بیانات اور تقاریر پر مبصرین کا کہنا ہے کہ نریندر مودی وزارت عظمی کے عہدہ کی اہلیت سے محروم ہوچکے ہیں۔ یہ باتیں تو قانون ، انصاف اور انسانیت پر ایقان رکھنے والی طاقتوں کی ہیں لیکن سنگھ پریوار کے نزدیک اشتعال انگیزی جس قدر زیادہ کی جائے وہی شخص وزارت عظمیٰ کے لئے حقدار رہے گا۔ دلچسپ بات یہ دیکھی گئی کہ نریندر مودی نے جہاں جس انداز کا پیام دینا تھا ، رائے دہندوں تک پہنچا دیا۔ ایک دن مسلمانوں کا نام لے کر برا بھلا کہا گیا لیکن دوسرے دن مودی نے یو ٹرن لیتے ہوئے تمام مذاہب کے احترام کی بات کہی۔ دراصل مودی اپنے الگ الگ ویڈیو کلپس ہندوؤں اور مسلمانوں میں وائرل کرتے ہوئے رائے دہندوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہندوؤں کو بھڑکانے کے لئے اشتعال انگیز تقریر کا ویڈیو وائرل کیا جارہا ہے۔ سماج کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کی کوششوں کے خلاف کانگریس نے مورچہ سنبھال لیا ہے ۔ راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی انتخابی ریالیوں میں نریندر مودی کے حقیقی چہرہ کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ ہندوؤں کے منگل سوتر چھین کر مسلمانوں میں تقسیم کرنے سے متعلق مودی کے احمقانہ بیان پر پرینکا گاندھی نے بھرپور طنز کرتے ہوئے یاد دلایا کہ ان کی ماں سونیا گاندھی نے اپنا منگل سوتر ملک پر قربان کردیا۔ راجیو گاندھی کی قربانی کا حوالہ دیتے ہوئے پرینکا گاندھی نے مودی کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ گاندھی خاندان نے جدوجہد آزادی سے لے کر آج تک ملک کیلئے قربانیاں دی ہیں۔ ہندوستان کا کوئی سیاسی خاندان ایسا نہیں جو گاندھی خاندان کی قربانیوں کی مثال پیش کرسکے۔ اندرا گاندھی اور پھر راجیو گاندھی کی قربانیوں کے باوجود سونیا گاندھی نے خود کو ہندوستان سے اٹوٹ طور پر وابستہ کرتے ہوئے 10 سال تک ڈاکٹر منموہن سنگھ کو وزیراعظم کے عہدہ پر فائز کیا حالانکہ پارٹی نے انہیں وزیراعظم کے عہدہ کی پیشکش کی تھی۔ جس خاتون نے ساس اور شوہر کی قربانیوں کے باوجود اپنے دو لخت جگر ملک کی خدمت کے لئے پیش کئے ہیں تو ایسی خاتون پر تنقید کرنا انتہائی شرمناک ہے۔ مودی کی اشتعال انگیزی پر ندیم فرخ کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
زبان چلنے لگی لب کشائی کرنے لگے
نصیب بگڑا تو گونگے برائی کرنے لگے