زمیں سنبھلتی نہیں آسمان مانگتے ہیں

   

ایک ملک ایک پارٹی … مودی کا نشانہ
رام مندر کیلئے سپریم کورٹ کا سہارا

رشیدالدین
دوسری مرتبہ اقتدار کے فوری بعد نریندر مودی نے جب ’’ایک ملک ایک الیکشن‘‘ کا نعرہ لگایا تھا تو شبہ ہوا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اندازہ ہوا کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ ساری دال ہی کالی ہے۔ مودی حکومت نے ایک ملک ایک الیکشن کے مسئلہ پر جب کل جماعتی اجلاس طلب کیا تو جمہوریت پسندوں اور سیاسی مبصرین کا ماتھا ٹھنکا کہ بی جے پی کی نیت اور ارادے ٹھیک نہیں ہے۔ مودی نے بظاہر یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ ریاستی اسمبلیوں کے الگ الگ انتخابات سے سرکاری خزانہ پر بوجھ پڑے گا ۔ مودی حکومت کو اگر عوامی رقومات کے زیاں کی واقع فکر ہوتی تو تلنگانہ اسمبلی کے وسط مدتی چناؤ کی اجازت نہیں دی جاتی۔ بی جے پی کا ون نیشن ون الیکشن کا نعرہ محض دکھاوا تھا، اصلی نعرہ تو ’’ون نیشن ون پارٹی‘‘ ہے ، جس کا واضح ثبوت کرناٹک اور گوا کے سیاسی حالات ہیں۔ کرناٹک میں کانگریس۔ جنتادل سیکولر مخلوط حکومت کو زوال سے دوچار کرنے کی مکمل منصوبہ بندی کی جاچکی ہے۔ باغی ارکان کے استعفے کے ذریعہ ایچ ڈی کمارا سوامی کو بیدخل کر کے یدی یورپا کی زیر قیادت بی جے پی حکومت کا قیام یقینی دکھائی دے رہا ہے۔ استعفوں کے تکنیکی نقائص کی بنیاد پر اسپیکر اسمبلی بحران ٹالنے کی لاکھ کوشش کریں ، کچھ ہونے والا نہیں ہے ۔ سارے ڈرامہ کا اسکرپٹ دہلی میں لکھا جاچکا ہے اور اسکرپٹ رائیٹر اور ڈرامہ کے ڈائرکٹر مودی۔امیت شاہ جوڑی ہے۔ فلم شعلے اور دیگر سوپر ہٹ فلموں کے اسکرپٹ رائیٹر کی مشہور جوڑی سلیم جاوید نے جس طرح بالی ووڈ پر حکمرانی کی تھی، موجودہ وقت میں سیاسی میدان میں مودی۔امیت شاہ جوڑی اپنے مقاصد کی تکمیل میں پیشرفت کر رہی ہے۔ کرناٹک کا بحران ابھی جاری تھا کہ گوا میں کانگریس کے 10 ارکان کو انحراف کی ترغیب دیتے ہوئے بی جے پی حکومت کو واضح اکثریت دلا دی گئی۔ سیاست میں اقدار اور اصولوں کی بات کرنے والے بی جے پی قائدین اقتدار کے لئے تمام غیر جمہوری ، غیر دستوری اور غیر اخلاقی حربے استعمال کر رہے ہیں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ملک میں واحد پارٹی یعنی بی جے پی کی حکمرانی رہے اور اپوزیشن کا صفایا کردیا جائے۔ سنگل پارٹی رول جمہوریت کی نہیں بلکہ ڈکٹیٹرشپ کی علامت ہے۔ سنگھ پریوار میں ہندو راشٹر کے لئے 2025 ء کا نشانہ مقرر کیا ہے۔ اس وقت تک ملک کی تمام ریاستوں میں بی جے پی کو برسر اقتدار لانے کا منصوبہ ہے۔ کرناٹک میں کمارا سوامی حکومت کو زوال پذیر کرنے کی کوشش سابق میں بھی کی جاچکی ہے لیکن مرکز میں دوسری مرتبہ اقتدار کے بعد حوصلے بلند ہوگئے۔ مخلوط حکومت کے داخلی اختلافات کا بی جے پی نے فائدہ اٹھایا۔ کچھ یہی حالت گوا میں کانگریس کی ہوئی۔ کانگریس کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس نازک گھڑی میں پارٹی صدر سے محروم ہے۔ کمانڈر کی عدم موجودگی سے کانگریس ایک منتشر گھر اور کیڈر بے سمت فوج کی طرح ہے۔ ایسے میں دشمن اپنی چالوں کو بآسانی کامیاب کرسکتا ہے۔ بی جے پی کا اگلا نشانہ راجستھان ، مدھیہ پردیش اور مغربی بنگال ہے۔ کوئی عجب نہیں کہ تلنگانہ کی کے سی آر حکومت بھی نشانہ پر آجائے۔ لوک سبھا کی انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ ترنمول کانگریس کے 40 ارکان اسمبلی ان سے ربط میں ہیں۔ وزیراعظم کے بیان سے صاف ظاہر ہے کہ انحراف کی حوصلہ افزائی کس سطح پر کی جارہی ہے۔ مغربی بنگال میں کسی بھی وقت بڑے پیمانہ پر انحراف کے ذریعہ ممتا بنرجی کے لئے بحران پیدا کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح راجستھان اور مدھیہ پردیش میں کانگریس حکومتوں کے باوجود لوک سبھا چناؤ بی جے پی کے حق میں رہے۔ وہاں کی حکومتیں معمولی اکثریت کے ساتھ قائم ہیں ، لہذا بی جے پی کو انحراف کی حوصلہ افزائی میں دشواری نہیں ہوگی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار نے چین کے نقش قدم پر چلنے کی ٹھان لی ہے ، جہاں مارکسٹ کمیونسٹ پارٹی کے سوا کوئی اور پارٹی نہیں ہے ۔ وہاں مذبہی آزادی جمہوریت اور انسانی حقوق کا کوئی تصور نہیں۔ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے مغربی بنگال اور تلنگانہ میں دستک دے دی ہے ۔ تلنگانہ کی برسر اقتدار پارٹی میں سب کچھ ٹھیک نہیں۔ کانگریس کے 12 ارکان اسمبلی کے ٹی آر ایس میں انحراف اور کے سی آر کے آمرانہ طرز حکمرانی کے سبب سطح کے نیچے طوفان مچل رہا ہے اور بی جے پی اس موقع کا فائدہ اٹھانے بے چین ہے۔ امیت شاہ نے ہر ماہ تلنگانہ کے دورہ کا اعلان کیا جبکہ ہر 15 دن میں ایک مرکزی وزیر تلنگانہ کا دورہ کریں گے ۔ مرکزی کابینہ میں تلنگانہ سے شامل کئے گئے جی کشن ریڈی کو داخلہ کا اہم قلمدان دے کر امیت شاہ نے اپنے ساتھ رکھا ہے۔ کشن ریڈی کی جس طرح حوصلہ افزائی کی گئی ، اس سے امیت شاہ کے عزائم کا پتہ چلتا ہے۔ امیت شاہ کا نشانہ 2023 ء میں حکومت کی تشکیل ہے۔ کے سی آر کے لئے پارٹی کو متحد رکھتے ہوئے بی جے پی کے خطرہ سے نمٹنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔

ملک میں کانگریس کے بشمول دیگر سیکولر طاقتوں کا کمزور موقف بی جے پی کے لئے فائدہ مند ثابت ہورہا ہے۔ جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں سے مقابلہ کیلئے نظریاتی طور پر صرف کمیونسٹ پارٹیاں میدان میں تھیں لیکن آج ملک میں کمیونسٹ پارٹیوں کی حالت توقع کے برخلاف ہے۔ وہ کمیونسٹ پارٹیاں جو کبھی تشکیل حکومت میں اہم رول ادا کرتی رہیں ، آج ملک بھر میں وہ صرف تین نشستوں کے ساتھ اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ انتخابات میں کمزور مظاہرہ کے نتیجہ میں کمیونسٹ پارٹیوں کا قومی موقف خطرہ میں دکھائی دے رہا ہے۔ مغربی بنگال اور کیرالا کو چھوڑ کر دیگر ریاستوں میں کمیونسٹ کیڈر دیگر پارٹیوں کا رخ کرچکا ہے۔ نظریات پر سختی سے کاربند ان پارٹیوں کو دوبارہ متحرک ہونا پڑے گا۔ سابق وزیراعظم دیوے گوڑا نے ملک میں بی جے پی کے بڑھتے قدم روکنے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کی تجویز پیش کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کیلئے قیادت کون کرے گا ؟ بی جے پی نے ٹاملناڈو اور کیرالا کو چھوڑ کر ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں اپنا موقف مستحکم کرلیا ہے۔ آسام میں جس طرح توقع کے برخلاف بی جے پی برسر اقتدار آگئی، اسی طرح بنگال بھی ترنمول کے ہاتھ سے کھسک سکتا ہے۔ سنگل پارٹی سسٹم جمہوریت کیلئے اچھی علامت نہیں ہے۔ تاریخ شاہد ہے ، جب کبھی برسر اقتدار پارٹی کو حد سے زیادہ اکثریت حاصل ہوگئی تو پارٹی کے اندر ہی اپوزیشن پیدا ہوگیا۔ اس کی مثال راجیو گاندھی کے وقت وی پی سنگھ کی بغاوت ہے۔ بی جے پی میں مودی اور امیت شاہ کا تسلط لمبے عرصہ تک نہیں چل پائے گا۔ عہدوں سے محروم مایوس عناصر اور غیر ہندی بیلٹ کے اقتدار کو برداشت نہ کرنے والے قائدین ضرور آواز اٹھائیں گے۔ حکومت کی تشکیل کے فوری بعد جب کابینی کمیٹیوں کے قیام کا مرحلہ آیا تو راجناتھ سنگھ نے عدم شمولیت پر کھل کر ناراضگی جتائی جس کے بعد انہیں کمیٹیوں میں شامل کرنا پڑا۔ بی جے پی ہو یا کوئی اور پارٹی دہلی میں ہندی بیلٹ کا غلبہ رہا ہے۔ ہندی ریاستوں کے قائدین نے نریندر مودی کی قیادت کو بحالت مجبوری قبول کیا ہے۔ بی جے پی میں داخلی اپوزیشن کے ابھرنے کیلئے وقت لگ سکتا ہے۔ دوسری طرف ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لئے سپریم کورٹ کا سہارا لینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ تنازعہ کے عدالت کے باہر قابل قبول حل تلاش کرنے کے لئے تین رکنی مصالحتی پیانل تشکیل دیا گیا تھا۔ یہ پیانل سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق فریقین کے علاوہ سماج کے مختلف طبقات سے تنازعہ کا قابل قبول حل تلاش کر رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے مصالحتی کمیٹی کو 18 جولائی تک رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی اور ساتھ ہی اس بات کا اشارہ دیا کہ متنازعہ اراضی کی ملکیت کے بارے میں 25 جولائی سے باقاعدہ سماعت کا آغاز ہوجائے گا۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ اگر مصالحتی کمیٹی کوئی حل پیش کرنے میں ناکام رہتی ہے تو پھر عدالت کو مداخلت کرنی پڑے گی۔ بی جے پی نے رام مندر کی تعمیر ہمیشہ اپنے ایجنڈہ میں سرفہرست رکھا لیکن پہلی میعاد میں کوئی پیشرفت نہیں کی۔ شائد اسے اس بات کا اندیشہ تھا کہ رام مندر کے مسئلہ پر اسے اپوزیشن کے ساتھ سیکولر عوام کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ دوسری مرتبہ اقتدار ملتے ہی سنگھ پریوار اور ایودھیا کے سادھوؤں کی جانب سے حکومت پر دباؤ بڑھ چکا ہے ۔ نریندر مودی کو مندر کی تعمیر کیلئے قانون سازی کی صلاح دی جارہی ہے ۔ پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کے سبب مودی حکومت کیلئے مندر کے حق میں قانون سازی کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ مصالحتی کمیٹی کی سفارشات پر کیا موقف اختیار کرے گا۔ کیا مرکزی حکومت سپریم کورٹ کی سفارشات کو من و عن قبول کرے گی؟ رام مندر تنازعہ کے سلسلہ میں جس طرح عدالتی کارروائی میں تیزی پیدا کی گئی۔ سیاسی مبصرین کے مطابق یہ مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے۔ جس طرح الہ آباد ہائی کورٹ نے اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے فیصلہ سنایا تھا، اسی نہج پر سپریم کورٹ سے متنازعہ اراضی کو مندر کی تعمیر کیلئے حاصل کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ مسجد کی شہادت کے بعد جس مقام پر غیر قانونی مندر قائم کیا گیا، اس حصہ کو الہ آباد ہائی کورٹ نے مندر کی تعمیر کیلئے الاٹ کرنے کی سفارش کی تھی۔ بی جے پی اپنی دوسری میعاد میں مندر کی تعمیر کے ذریعہ اکثریتی طبقہ کی تائید حاصل کرسکتی ہے۔ پہلی میعاد میں بی جے پی نے رائے دہندوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کردیا۔ اب دوسری میعاد میں رام مندر اور یکساں سیول کوڈ جیسے مسائل کے ذریعہ ووٹ بینک کو مزید مستحکم کرنا چاہے گی تاکہ تیسری میعاد کے لئے کامیابی کی راہ ہموار ہوسکے۔ سیکولر طاقتوں کو اس سازش کا مقابلہ کرنے کے لئے چوکس رہنا ہوگا۔ ملک بھر میں بی جے پی اقتدار کی کوششوں پر حیدر علوی نے کچھ یوں تبصرہ کیا ہے ؎
زمیں سنبھلتی نہیں آسمان مانگتے ہیں
یہ لوگ کیسے ہیں سارا جہان مانگتے ہیں