بہارنتائج… نتیش کمار میان آف دی میچ
ووٹ چوری اور ووٹ خریدی … مہا گٹھ بندھن محاسبہ کرے
رشیدالدین
’’جو جیتا وہی سکندر‘‘ بہار میں این ڈی اے کی سونامی نے مہا گٹھ بندھن کو بدترین شکست سے دوچار کردیا ہے ۔ اسے الیکشن کمیشن کا کمال کہہ لیں یا پھر فہرست رائے دہندگان میں خصوصی نظرثانی کا نتیجہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نتیش کمار کی زیر قیادت این ڈی اے نے بہار میں حکمرانی کا سلسلہ جاری رکھنے کا سرٹیفکٹ عوام سے حاصل کر لیا ہے ۔ مہا گٹھ بندھن قائدین نتیجہ کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں اور وہ فہرست رائے دہندگان میں الٹ پھیر اور این ڈی اے پر ووٹ خریدی کا الزام عائد کر رہے ہیں ۔ ووٹ چوری ہو یا پھر نوٹ برائے ووٹ کے ذریعہ رائے دہندوں کو راغب کرنا یہ الزامات اگر درست بھی ہوں تب بھی دنیا الزامات نہیں بلکہ نتیجہ کو دیکھتی ہے۔ این ڈی اے نے 2020 کے مقابلہ ریکارڈ کامیابی حاصل کرتے ہوئے راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس پارٹی کو یہ سبق سکھایا ہے کہ اگر اتحاد ہو تو کامیابی ممکن ہے۔ بہار میں اس حقیقت سے ہر سیاستداں واقف ہے کہ راہول گاندھی اور تیجسوی یادو نے بھلے ہی ووٹ ادھیکار ریالی ساتھ مل کر نکالی لیکن ان میں دوریاں برقرار تھیں۔ انتخابی مہم کے دوران راہول گاندھی نے ایک مرتبہ بھی یہ اعلان نہیں کیا کہ تیجسوی یادو چیف منسٹر کے عہدہ کے امیدوار ہیں ۔ مہا گٹھ بندھن میں تال میل کی کمی کا بی جے پی نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور مودی و امیت شاہ کی چالبازیاں رنگ لائیں۔ بہار کے نتائج کو نتیش کمار کی کارکردگی کی جیت بھی کہا جاسکتا ہے ۔ بہار کے رائے دہندوں نے گودی میڈیا کے اگزٹ پولس کو بھی غلط ثابت کردیا اور اگزٹ پولس سے زیادہ نشستوں پر این ڈی اے کو کامیابی دلائی ۔ نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی مبصرین نے تجزیہ کا آغاز کردیا جس میں کئی پہلو سامنے آئے ہیں۔ 2020 کے مقابلہ 70 لاکھ زائد رائے دہی ریکارڈ کی گئی جس سے یہ اندازہ کیا جارہا تھا کہ عوام نے تبدیلی کے حق میں ووٹ دیا ہے لیکن نتائج سے پتہ چلا کہ نتیش کمار کے حق میں بہار کے نوجوان اور خواتین کھڑے ہوئے۔ خواتین الیکشن میں کنگ میکر ثابت ہوئیں۔ انتخابات سے عین قبل نتیش کمار نے 30 لاکھ خواتین کے بینک کھاتہ میں فی کس 10 ہزار روپئے جمع کرائے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے باوجود حکومت نے خواتین کے بینک اکاؤنٹس میں رقم جمع کی لیکن الیکشن کمیشن خاموش رہا۔ 30 لاکھ خواتین کے ووٹ عملاً 10 ہزار روپئے میں خرید لئے گئے جو نوٹ برائے ووٹ اسکام سے کم نہیں۔ نتیش کمار نے ضعیف اور بیوہ خواتین کے ماہانہ وظیفہ کو 400 روپئے سے بڑھاکر 1100 روپئے کردیا اور بیروزگار نوجوانوں کو ہر ماہ 1000 روپئے ادا کئے جارہے تھے۔ اپوزیشن کے الزامات اور اعتراضات اپنی جگہ لیکن نتائج کے ذریعہ نتیش کمار نے اپنی مقبولیت کو ثابت کردیا ہے ۔ عوام کا فیصلہ ثابت کرتا ہے کہ بہار کے انتخابی میدان میں نتیش کمار ’’میان آف دی میچ‘‘ رہے۔ مہا گٹھ بندھن نے فہرست رائے دہندگان پر خصوصی نظرثانی کے ذریعہ دھاندلیوں کے خلاف بہار میں ریالیوں کا اہتمام کیا لیکن ووٹ چوری کے خلاف شعور بیداری مہم بھی کامیابی میں مددگار ثابت نہ ہوسکی۔ فہرست رائے دہندگان سے 80 لاکھ ناموں کو حذف کردیا گیا اور 5 لاکھ نام ایک سے زائد مقامات پر موجود ہیں۔ ایک لاکھ گمنام ووٹ فہرست رائے دہندگان میں شامل کئے گئے۔ ظاہر ہے کہ جب الیکشن کمیشن کسی پارٹی کی محاذی تنظیم کا رول ادا کرنے لگے تو پھر اسے کامیابی سے کون روک سکتا ہے ۔ اپوزیشن نے الیکشن کمیشن پر سنگین الزامات عائد کئے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کمیشن نے الزامات کے جواب میں این ڈی اے کی کھل کر مدد کی۔ الیکشن کمیشن کے رول کے علاوہ نتیش کمار کی کارکردگی نے بھی کامیابی میں اہم رول ادا کیا۔ کم نشستوں کے باوجود بی جے پی کو نتیش کمار کو چیف منسٹر بنانے پر مجبور ہونا پڑا تھا اور گزشتہ پانچ برسوں میں نتیش کمار نے اپنی برتری کو قائم رکھا ۔ امیت شاہ اور مودی نے انتخابی مہم کی کمان سنبھالی اور انتخابی مہم کے چانکیہ کی حیثیت سے شہرت رکھنے والے امیت شاہ نے اپنی صلاحیتوں کا بھر پور کمال دکھایا ہے۔ الغرض بہار کے رائے دہندوں نے این ڈی اے کو اقتدار سونپنے کا فیصلہ کیا ہے اور اپوزیشن کو اپنی نشستوں میں کمی کا محاسبہ کرنا چاہئے۔ بہار جو جئے پرکاش نارائن کی انقلابی تحریک کی سرزمین ہے، وہاں کے رائے دہندوں نے صرف الیکشن کے وقت ان کے درمیان آنے والے قائدین کی تائید نہیں کی ہے۔ مبصرین کے مطابق فرقہ پرستی اور سیکولرازم اب انتخابی موضوعات باقی نہیں رہے ۔ عوام دو وقت کی روٹی اور مصیبت کے وقت مدد کرنے والے کا ساتھ دینا چاہتے ہیں۔ نتیش کمار کی فلاحی اسکیمات نے انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا ہے ۔ کانگریس پارٹی کو اپنا محاسبہ کرنا ہوگا اور اپنی زیر اقتدار ریاستوں میں حکومتوں کو بچانے کیلئے فلاحی اسکیمات اور انتخابی وعدوں کی تکمیل پر توجہ دینی ہوگی۔ نریندرمودی کی مرکز میں 15 سالہ طویل حکمرانی اور مرکزی حکومت کی بعض امدادی اسکیمات سے بھی بہار میں این ڈی اے کو فائدہ ہوا۔ نتائج سے یہ بات پھر ثابت ہوچکی ہے کہ عوام خاندانی سیاست کو قبول کرنے تیار نہیں بلکہ کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دینا چاہتے ہیں۔ این ڈی اے کی کامیابی پر صرف الزام تراشیوں کے بجائے اپوزیشن کو محاسبہ کرنا ہوگا۔ تیجسوی یادو نے ہر گھر میں ایک روزگار اور خواتین کو کئی ہزار روپئے کا وعدہ ضرور کیا تھا لیکن نتیش کمار نے اکاؤنٹ میں 10 ہزار روپئے جمع کرتے ہوئے عملی ثبوت دیا جس کا انہیں فائدہ ہوا۔ بہار کے نتائج ملک کی اپوزیشن زیر اقتدار ریاستوں کے لئے خطرہ کی گھنٹی ہے کیونکہ الیکشن کمیشن نے مغربی بنگال ، ٹاملناڈو، کیرالا اور دیگر ریاستوں میں فہرست رائے دہندگان پر خصوصی نظرثانی کا آغاز کردیا ہے ۔ خصوصی نظرثانی کے ذریعہ بی جے پی کی مدد کرنے کا سلسلہ بہار کی طرح جاری رہا تو پھر ممتا بنرجی، ایم کے اسٹالن اور وجین کو اپنی اپنی ریاستوں میں کامیابی حاصل کرنا دشوار ہوجائے گا۔
بہار نے دو مراحل کی رائے دہی میں آزادی کے بعد سے آج تک کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ۔ پہلے مرحلہ میں 65.08 فیصد جبکہ دوسرے مرحلہ میں 68.76 فیصد رائے دہی ریکارڈ کی گئی۔ 2020 میں رائے دہی 56 اور 58 فیصد درج کی گئی تھی ۔ خواتین اور نوجوانوں کے جوش و خروش کو دیکھتے ہوئے یہ پیش قیاسی کی جارہی تھی کہ اس مرتبہ عوام تبدیلی چاہتے ہیں۔ 2020 میں این ڈی اے اور مہا گٹھ بندھن میں محض 11150 ووٹوں کا فرق تھا ۔ این ڈی اے کو 125 اور مہا گٹھ بندھن کو 110 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ محض 5000 ووٹوں کے فرق سے 50 نشستوں پر این ڈی اے کو کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔ تازہ الیکشن میں خواتین کی رائے دہی تقریباً 75 فیصد درج کی گئی اور 18 سال عمر کے نئے رائے دہندوں نے بھی کافی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا ۔ بہار میں مسلم اور یادو نے ہمیشہ کی طرح مہا گٹھ بندھن کی تائید کی لیکن دیگر طبقات کی تائید حاصل کرنے میں اسے ناکامی ہوئی۔ پرشانت کشور کے دعوے بھی غلط ثابت ہوئے اور وہ الیکشن پر اثر انداز ہونے میں ناکام رہے ۔ دوسری طرف اترپردیش میں یوگی ادتیہ ناتھ نے ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری کو آگے بڑھاتے ہوئے تمام سرکاری اسکولوں میں وندے ماترم کو لازمی قرار دیا ہے ۔ وندے ماترم کا گیت مسلمانوں کے لئے ہرگز قابل قبول نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ اسلامی عقائد سے راست طور پر ٹکراتا ہے ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے یوگی حکومت کے فیصلہ کی مخالفت ضرور کی لیکن آج علی میاں جیسی شخصیت کی کمی کا ہرکسی کو احساس ہے ۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی (علی میاں) کی حیات میں اترپردیش حکومت نے اسکولوں میں سرسوتی وندنا کو لازمی قرار دیا تھا۔ علی میاں نے مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو اسکولوں سے نکال لیں ۔ علی میاں کی اس اپیل کا حکومت پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ اس نے سرسوتی وندنا کو واپس لے لیا تھا ۔ یوگی حکومت کی جانب سے وندے ماترم کے لزوم پر بعض علماء نے مسلمانوں سے اپنے بچوں کو اسکول سے نکالنے کی اپیل ضرور کی لیکن اس کا کوئی خاص اثر دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ یوگی ادتیہ ناتھ اترپردیش میں مسلم علاقوں کے ناموں کو تبدیل کرنے اور ہندوتوا ایجنڈہ پر تیزی سے عمل آوری کی سمت گامزن ہے لیکن اترپردیش میں سیکولر اور مسلم قیادت ایسی نہیں جو انہیں روک سکے۔ اتراکھنڈ میں بی جے پی حکومت نے یکساں سیول کوڈ نافذ کردیا ہے اور نریندر مودی نے ملک بھر میں یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کا اشارہ دیا ہے ۔ بہار کے نتائج کے بعد ملک کی سیکولر اور جمہوری طاقتوں کو سر جوڑ کو اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لینا ہوگا۔ نتائج پر ندیم شاد کا یہ شعر صادق آتا ہے۔ ؎
سبب تلاش کرو اپنے ہارجانے کا
کسی کی جیت پہ رونے سے کچھ نہیں ہوگا