سب اتر جائے گا اک ٹھوکر تو کھانے دیجئے

   

رشیدالدین
’’کبوتر با کبوتر باز با باز‘‘ اس محاورہ کا خلاصہ کرنے کی شائد کوئی ضرورت ہو۔ انسان اپنے دوست کے مذہب پر ہوتا ہے۔ یعنی کہ کسی انسان کی شخصیت کا اندازہ اس کے دوستوں کو دیکھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ کسی کے عادات و اطوار خوبیوں اور خامیوں کا پتہ کرنا ہو تو اس کے دوستوں کو دیکھیں۔ کسی اور سے زیادہ انسان اپنے دوستوں کی خصوصیات اور عادتوں کو جلد قبول کرلیتا ہے۔ اسی بات کو خربوزہ دیکھ کر خربوزہ کا رنگ پکڑنا بھی کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر بزرگ ہمیشہ اچھی صحبت اختیار کرنے کی صلاح دیتے ہیں تاکہ انسان بری خصلتوں سے محفوظ رہے اور اچھی خصوصیات کو قبول کریں۔ جس طرح اچھائی اور برائی یا پھر نیکی اور بدی یکجا نہیں ہوسکتے ، اسی طرح اچھے اور برے کا ساتھ نہیں ہوسکتا۔ فطرت اور عادات میں یکسانیت اور ہم اہنگی ایک دوسرے کو قریب کرتی ہے اور یہی گہری دوستی کا سبب بنتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ کبوتر کو کبوتر اور باز کو باز کے ساتھ ہی دیکھا جائے گا۔ 24 فروری کو دو گہرے دوستوں کی ملاقات ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم نریندر مودی گجرات کے احمد آباد میں روڈ شو اور اسٹیڈیم میں ’’نمستے ٹرمپ‘‘ پروگرام سے خطاب کریں گے۔ ملاقات کے لئے احمد آباد کا انتخاب محض اتفاق نہیں بلکہ ذہنی ہم آہنگی کو ثابت کرتا ہے۔ جس طرح ہم خیال دوست ملاقات کے لئے اپنی پسند کے مقام کا انتخاب کرتے ہیں، اسی طرح احمد آباد میں ملاقات کے ایک جشن اہتمام تعجب کی بات نہیں ہے ۔ ہمیں یہ کہنے بلکہ حقیقت کے اظہار میں کوئی تامل نہیں کہ ٹرمپ اور مودی کے دامن پر مسلمانوں کے خون کے دھبے ہیں۔ فلسطینی جانبازوں کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں اسلامو فوبیا کا شکار امریکہ دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کا خون بہا رہا ہے ۔ دوسری طرف گجرات کے مسلم کش فسادات کی چیف منسٹر کی حیثیت سے سرپرستی کرنے والے نریندر مودی ہیں۔ اسے محض اتفاق کہیں یا کچھ اور کہ 3000 سے زائد بے قصور مسلمانوں کے قتل عام کے وقت مودی چیف منسٹر اور امیت شاہ وزیر داخلہ تھے۔ اب جبکہ مودی وزیراعظم اور امیت شاہ وزیر داخلہ ہیں، ملک میں مسلمانوں کے تشخص کو ختم کرنے شہریت پر سوال اٹھاتے ہوئے سیاہ قوانین وضع کئے جارہے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر ٹرمپ اور قومی سطح پر مودی ۔امیت شاہ جوڑی کا ہدف اسلام اور مسلمان ہیں۔ یکساں دلچسپی اور مشاغل کے اعتبار سے امیت شاہ اور مودی کی گجراتی جوڑی ملک میں اٹوٹ دوستی کی مثال ہے۔ بین الاقوامی سطح پر گہری دوستی کا مثلث ہے جس میں ٹرمپ اور مودی کے ساتھ اسرائیل کے وزیراعظم بنجامن نتن یاہو شامل ہیں۔ یہ تینوں بارہا اپنی گہری دوستی کا اظہار کرچکے ہیں۔ اب ہمیں مزید یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ تینوں میں کیا یکسانیت ہے اور تینوں کا مشترکہ نشانہ کون ہیں ؟ خیر ایک دوست دوسرے دوست کے استقبال کے لئے جیسے بے قابو ہے اور دوست کے قدموں کی آہٹ سننے کیلئے راستہ پر آنکھیں اور کان بچھائے ہوئے ہیں۔ مودی کے دورہ امریکہ کے موقع پر جس طرح ہاؤڈی مودی کا اہتمام کیا گیا تھا، اس کے جواب میں احمد آباد اسٹیڈیم میں ’’نمستے ٹرمپ‘‘ شو کا اہتمام کیا گیا ہے۔ مودی کی امریکہ میں آؤ بھگت ہو یا پھر ٹرمپ کا گجرات میں شاہانہ استقبال ، دونوں میں ایک حقیقت فراموش کردی گئی ۔ گجرات فسادات کے بعد امریکہ نے مودی کے داخلہ پر پابندی عائد کرتے ہوئے ویزا کی اجرائی سے انکار کردیا تھا۔ کئی برس تک مودی امریکی ویزا کے سلسلہ میں بلیک لسٹ رہے۔ ٹرمپ کا اس شہر میں استقبال ہورہا ہے جہاں کے فسادات کے سبب مودی کو ویزا دینے سے انکار کیا گیا تھا ۔ اس وقت کے حکمرانوں کی پالیسی کو درکنار کرتے ہوئے ٹرمپ اسی شہر آکر گجرات متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑکنے اور کریدنے کا کام کر رہے ہیں ۔ آج بھی گجرات کے قاتل آزاد ہیں اور بے گناہوں کا خون انصاف کیلئے آواز دے رہا ہے۔ احمد آباد ایرپورٹ سے اسٹیڈیم تک 22 کیلو میٹر طویل روڈ شو کے علاقہ کی سڑکیں اور گلی کوچے یقیناً مسلمانوں کے خونِ ناحق کی گواہ ہوں گے ۔ ٹرمپ میں اگر انسانیت زندہ ہو تو آج بھی مظلوموں کی فریاد اور خون کی بو محسوس کرسکتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اپنے ’’کارنامے‘‘ دکھانے متاثرہ علاقوں کی سیر کے لئے دوست کو احمد آباد لایا جارہا ہے ۔ ایک جہاندیدہ شخصیت نے صحیح کہا کہ دنیا کی کسی بھی فیکٹری کا صابن یا ڈیٹرجنٹ مودی ۔ امیت شاہ کے دامن پر موجود بے گناہوں کے خون کے دھبوں کو دھو نہیں سکتا۔ کچھ یہی حال ٹرمپ کا بھی ہے۔ دنیا بھر کے سائنسداں اور سیاستداں مل کر بھی ٹرمپ کے دامن کو صاف نہیں کرسکتے۔ ٹرمپ کے پسندیدہ وزرائے اعظم مودی اور نتن یاہو ہیں۔ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت اعلان کرتے ہوئے فلسطینیوں کو جائز حق سے محروم کرنے کی سازش کے تحت ٹرمپ نے بیت المقدس کا دورہ کیا تھا ۔ بیت المقدس وہ سر زمین ہے جہاں بازیابی قبلہ اول کے لئے فلسطینی اپنی جانوں کی قربانی دے رہے ہیں۔ بیت المقدس کے دورہ کے بعد ٹرمپ اپنے دوسرے دوست کے پاس پہنچ رہے ہیں۔ ٹرمپ کی آمد کے پیش نظر غریبوں کو راستہ سے ہٹانے کی مہم چلائی گئی ۔ سلم علاقوں اور جھگی جھونپڑیوں کا صفایا کرتے ہوئے بلڈوزر چلادیا گیا۔ ٹھیلہ بنڈی پر کاروبار کرنے والوں کو بے دخل کردیا گیا۔ مودی شائد اپنے ’’اچھے دن‘‘ بھول گئے جب وہ گجرات میں ریلوے اسٹیشن پر چائے فروخت کرتے تھے ۔ اس وقت کسی حکومت نے شائد انہیں اس طرح بے دخل کیا ہو جس طرح ان کے دوست کیلئے گجرات کی حکومت کر رہی ہے۔ غریب بستیوں اور پسماندگی کا نظارہ نہ ہو اس کے لئے سڑک کی دونوں جانب دیواریں تعمیر کرنے کی اطلاعات ہیں۔ دراصل مودی حکومت کے حالیہ متنازعہ فیصلوں بالخصوص دفعہ 370 کی برخواستگی کشمیری عوام اور قائدین کے خلاف تحدیدات، شہریت ترمیمی قانون ، این آر سی اور این پی آر کے سبب دنیا بھر میں ہندوستان کا وقار مجروح ہوا ہے ۔ مذہبی رواداری ، سیکولرازم اور مذہبی آزادی والے ملک ہندوستان کی بدنامی ہوئی ۔ سیاہ قوانین کے خلاف ملک بھر میں جاری احتجاج کے نتیجہ میں عالمی سطح پر ہندوستان کے تعلقات مختلف ممالک سے بگڑ گئے۔ اس صورتحال سے دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے ٹرمپ کے دورہ کی دھوم دھام کی جارہی ہے۔ ویسے بھی ٹرمپ کے دورہ سے ہندوستان کو کسی فائدہ کا امکان نہیں ہے۔ ٹرمپ نے پہلے ہی کہہ دیا کہ مودی مجھے پسند ہیں لیکن ہندوستان سے تجارت نہیں ۔ تجارت کے فروغ اور دیگر شعبوں میں باہمی تعاون کے معاہدات کے بغیر یہ محض ایک دوستانہ تفریح کے سواء کچھ نہیں ہوگا۔

سیاہ قوانین کے ذریعہ مسلمانوں اور دلتوں کو ہراساں کرنے کے منصوبہ کی ترکی اور ملایشیا نے کھل کر مخالفت کی ۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوتیرس نے شہرت قانون اور کشمیر پر تشویش کا اظہار کیا ۔ انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ نئے قانون کے نتیجہ میں مسلمان بے وطن ہوسکتے ہیں۔ امریکی کانگریس کی سینئر رکن نے بھی اقلیتوں کے تحفظ پر اندیشوں کا اظہار کیا ہے ۔ برطانوی پارلیمنٹ کے ایک رکن کو محض اس لئے ملک میں داخلہ کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ وہ ہندوستان کی کشمیر پالیسی کے خلاف ہیں۔ ہندوستان کے نقطہ نظر سے سکریٹری جنرل اقوام متحدہ نے داخلی امور میں مداخلت کی ہے ۔ کیا ہندوستان بطور احتجاج اقوام متحدہ سے الگ ہوجائے گا؟ دنیا کا کوئی بھی امن پسند ملک اور سیول رائٹس کی تنظیم ایسی نہیں جس نے شہریت قانون اور کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار نہ کیا ہو۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اندرا گاندھی کے دور میں ایمرجنسی کے نفاذ سے ملک کی جو رسوائی ہوئی تھی، اس سے کہیں زیادہ رسوائی اور بدنامی شہریت قانون کے سبب ہوئی ہے۔ صورتحال اس قدر بگڑ گئی کہ اب تو ہر سرکاری ادارے پر زعفرانی رنگ چڑھ گیا ہے۔ گوہاٹی ہائی کورٹ نے زبیدہ بیگم کے 15 دستاویزات کو ماننے سے انکار کردیا جبکہ ان کے شوہر اور والدین کی ہندوستانی شہریت تسلیم کی گئی ۔ دراصل آسام میں این آر سی کا قہر جاری ہے ۔ آدھار کارڈ جاری کرنے والے ادارے نے بھی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے عوام سے شہریت کا ثبوت مانگا ہے۔ دراصل مودی حکومت کی پالیسیوں نے سرکاری محکمہ جات کی ہمت بڑھادی ہے ۔ اسی دوران امیت شاہ نے اروناچل پردیش کا دورہ کیا اور اعلان کیا کہ خصوصی موقف سے متعلق دستوری دفعہ 371 برقرار رہے گی اور عوام کو اندیشوں کی ضرورت نہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مرکز کا رویہ تمام ریاستوں کے ساتھ مساوات پر مبنی ہے تو پھر تمام ریاستوں کا خصوصی موقف ختم ہونا چاہئے ۔ صرف مسلم اکثریتی ریاست کشمیر کا خصوصی موقف ختم کرنا یہ ثات کرتا ہے کہ حکمرانوں کے خون اور خمیر میں مسلم دشمنی ہے۔ انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ شمال مشرقی ریاستوں کا خصوصی موقف ختم کیا جائے یا پھر کشمیر کا بحال کیا جائے۔ پروفیسر وسیم بریلوی نے حالات پر کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے ؎
نشۂ طاقت خدا سے جنگ کا اعلان ہے
سب اتر جائے گا اک ٹھوکر تو کھانے دیجئے