سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی

   

یکساں سیول کوڈ… آر ایس ایس کا ایجنڈہ
مسلمان بے حس… قیادت ٹوئیٹر تک محدود

رشیدالدین
سنگھ پریوار اور نفرت کا ایجنڈہ ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ ان دونوں کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔ سنگھ پریوار کا وجود اور اس کی بنیاد ہی نفرت اور منافرت پر ہے۔ ایسے وقت جبکہ مرکز میں بی جے پی کا اقتدار ہو تو پھر ایجنڈہ کو کچھ زیادہ ہی ہوا دی جائے گی ۔ یوں بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بی جے پی دراصل سنگھ پریوار کا سیاسی شعبہ ہے ۔ آر ایس ایس کی قیادت میں ایجنڈہ طئے کر کے عمل آوری کیلئے بی جے پی کے حوالے کیا جاتا ہے کیونکہ سیاسی طاقت کے بغیر ایجنڈہ کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔ مرکز میں نریندر مودی حکومت کے قیام کے بعد سے عوام کے اچھے دن نہیں آئے لیکن نفرت کے سوداگروں کے اچھے دن آگئے ۔ مودی اقتدار میں ہوں اور سنگھ پریوار اپنے ایجنڈہ پر خاموش رہے ، یہ کیسے ممکن ہوگا۔ مسلمانوں اور شریعت اسلامی کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے ۔ مسلمانوں کے تشخص کو ختم کرتے ہوئے دوسرے درجہ کے شہری کا احساس دلانے تک بات ختم نہیں ہوئی بلکہ ان کی شہریت پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ مودی حکومت کی پہلی میعاد میں مختلف عنوانات سے نشانہ بناتے ہوئے حوصلے پست کرنے کی کوشش کی گئی۔ جب یقین ہوگیا کہ مسلمان پست ہمت ہوچکے ہیں تو دوسری میعاد میں ایجنڈہ کے اہم امور کی تکمیل کی گئی ۔ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر ، طلاق ثلاثہ پر پابندی اور ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کشمیر کے خصوصی موقف کی برخواستگی میں کامیابی کے بعد سنگھ پریوار کے حوصلے بلند ہوچکے ہیں۔

این آر سی ، این پی آر اور سی اے اے کے ذریعہ شہریت ختم کرنے کی سازش ابھی تکمیل کی منتظر ہے۔ اگر کورونا وباء نے دستک نہ دی ہوتی تو این پی آر پر عمل آوری کا آغاز ہوجاتا۔ کورونا نے سنگھ پریوار کے ایجنڈہ پر بریک لگادی ہے۔ یہ عجیب اتفاق رہا کہ عدلیہ نے حکومت کے فیصلوں پر منظوری کی مہر ثبت کی ہے۔ سپریم کورٹ کا سہارا لے کر رام مندر اور طلاق ثلاثہ پر ایجنڈہ پورا کیا گیا ۔ ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کیلئے بھومی پوچن اور وزیراعظم کی شرکت نے سنگھ پریوار کو ایجنڈہ آگے بڑھانے کا حوصلہ دیا ہے ۔ سادھو سنتوں کی 13 مختلف تنظیموں پر مشتمل اکھل بھارتیہ اکھاڑا پریشد نے کاشی اور متھرا کی مساجد کے خلاف تحریک کا اعلان کیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایودھیا کی طرز پر تحریک چلاتے ہوئے بابری مسجد کی طرح ان مساجد کو شہید کیا جائے گا ۔ جیسے ہم نے پہلے کہا کہ کسی بھی تحریک کی کامیابی کیلئے سیاسی طاقت ضروری ہے ۔ 1990 ء میں رام مندر کے حق میں تحریک شروع ہوئی تھی اور یو پی میں کلیان سنگھ اور مرکز میں نرسمہا راؤ کی سرپرستی میں صرف دو سال میں مسجد کو شہید کرنے کا منصوبہ کامیاب ہوگیا۔ بنارس اور متھرا کی مساجد کے تعلق سے اسی طرح کی منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے۔ ویسے بھی نریندر مودی حکومت کی دوسری میعاد کے چار سال ابھی باقی ہیں۔ اکھاڑا پریشد کے اعلان پر آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کا ردعمل محتاط ہے۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے واضح کردیا کہ کاشی اور متھرا ان کے ایجنڈہ میں شامل نہیں ہیں بلکہ ان کی اولین ترجیح یکساں سیول کوڈ کا نفاذ ہے ۔ کاشی اور متھرا پر آر ایس ایس اور بی ایچ پی بھلے ہی مصلحت کا شکار ہوجائیں لیکن وہ مخالفت نہیں کرسکتے کیونکہ تنظیموں کے نام بھلے ہی الگ ہوں لیکن ایجنڈہ ایک ہی ہے۔ آر ایس ایس نے کہا کہ کاشی اور متھرا کی آزادی کے لئے فوری کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا

، ہاں اگر ہندو رہنما کوئی موقف اختیار کرتے ہیں تو آر ایس ایس اس کی تائید کرے گی۔ آر ایس ایس کا ایجنڈہ ویسے بھی مندروں کی آزادی سے زیادہ اہم ہے اور وہ ہندو راشٹر کا قیام چاہتے ہیں ۔ ہندو راشٹر کے لئے یکساں سیول کوڈ پہلا قدم ہوگا۔ جب شریعت اسلامی پر عمل آوری کا کوئی امکان باقی نہ رہے اور ہندو راشٹر کا خواب پورا ہو تو پھر کسی بھی عبادت گاہ کو مندر یا کسی کا جنم استھان قرار دے کر بآ سانی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ جب عدلیہ بھی حکومت پر مہربان ہو تو پھر سنگھ پریوار کیلئے کوئی بھی کام مشکل نہیں ۔ بابری مسجد مقدمہ کے فیصلہ نے عدالت کی غیر جانبداری پر سوال کھڑے کردیئے اور عوام کا اعتماد متزلزل کردیا ۔ دستور کی دفعہ 44 کے تحت یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی گنجائش موجود ہے اور عدالت بھی دستور کی آڑ میں حکومت کے فیصلہ کی تائید کرسکتی ہے۔ مودی حکومت کی دوسری میعاد میں جس طرح سنگھ پریوار کے ایجنڈہ پر تیزی سے عمل جاری ہے ، کیا یکساں سیول کوڈ کے نفاذ میں کامیابی مل پائے گی ؟ اس سوال پر سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت بے حسی کا شکار ہوجائے اور حکومت کے ہر فیصلہ کو کسی مزاحمت کے بغیر قبول کرلیں تو پھر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ 1986 ء کی مسلم قیادتیں آج کہاں ہیں اور نہ ہی آج کے مسلمانوں میں جذبہ حمیت باقی ہے، جب شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ کے مخالف شریعت فیصلہ کو بے اثر کرنے مرکز کو دستوری ترمیم پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ مسلمانوں کی مذہبی اور سیاسی قیادت بے اثر اور بے وزن ہوچکی ہے جس کے نتیجہ میں ملک کی دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت کی آواز صدا بہ صحرا بن چکی ہے۔ شریعت میں مداخلت کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو بابری مسجد کی طرح شریعت بھی ہاتھ سے نکل جائے گی ۔ کسی مزاحمت کے بغیر شریعت میں مداخلت کی راہ ہموار کی گئی جس کا آغاز سرکاری ملازمین کیلئے دوسری شادی پر پابندی سے ہوا ۔ پارٹی بھلے ہی کوئی ہو لیکن ایڈمنسٹریشن میں موجود سنگھ پریوار کی ذہنیت نے ہمیشہ اپنا کام کیا ہے۔

مرکزی حکومت مسلمانوں کے ترکہ سے متعلق قانون میں تبدیلی کی تیاری کر رہی ہے جس کے تحت لڑکیوں کو وراثت میں مساوی حصہ داری دی جاسکتی ہے۔ بی جے پی مخصوص شرعی قوانین کو نشانہ بناکر مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنا چاہتی ہے۔ اگر مسلمان ہوش کے ناخن نہ لیں تو پھر ہندو راشٹر کا اعلان ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ کسی بھی مسئلہ کیلئے صرف مذہبی اور سیاسی قیادت پر انحصار کرنا قوم کی نادانی ہے۔ کوئی بھی کام علماء ، مشائخ اور قائدین کے حوالے کرتے ہوئے خواب غفلت کا شکار ہونے کے نتیجہ میں آج بابری مسجد سے محروم ہوچکے ہیں۔ جب ہر کام قیادتوں کو کرنا ہے تو پھر عام مسلمان کیا کریں گے ۔ اسلام اور اپنی شناخت بچانا ہر ایک کی انفرادی ذمہ داری ہے ۔ جب تک مسلمانوں میں حمیت کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا ، اس وقت تک وہ صدائے احتجاج بلند نہیں کریں گے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے سے شریعت پر حملوں کو روکا نہیں جاسکتا۔ قیادتیں ہوں یا عام مسلمان ایمانی حرارت کے لئے حلال کمائی ضروری ہے ۔ جب تک اپنی کمائی شریعت کے مطابق حلال نہ ہو ، اس وقت تک ایمانی جذبہ پیدا نہیں ہوسکتا۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ عام مسلمانوں سے زیادہ مسلم قیادت ، سوشیل میڈیا ، بالخصوص ٹوئیٹر کی قیادت بن چکی ہے۔ مسائل پر جدوجہد کے بجائے سوشیل میڈیا پر احتجاج درج کرنا قیادت کا وطیرہ بن چکا ہے۔ اگر قیادتیں سوشیل میڈیا کے خول سے باہر نہیں آئیں گی تو پھر شریعت پر حملے جاری رہیں گے۔ اسی دوران پارلیمنٹ کا مانسون سیشن 14 ستمبر سے شروع ہورہا ہے۔ پارلیمنٹ کا اجلاس 6 ماہ کی مدت میں ایک بار ہونا ضروری ہے ، اسی مجبوری کے تحت یہ اجلاس طلب کیا گیا۔ اجلاس سے عوام کو زیادہ توقعات وابستہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کورونا کے حالات میں عوام کو درپیش مسائل کا حل پارلیمنٹ کے اجلاس سے نکلنا ممکن نہیں ہے۔ حکومت نے عوام کے لئے رعایتوں سے زیادہ مصیبتوں کا بوجھ عائد کردیا ہے ۔ لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں اگر کسی کو حکومت سے رعایت ملی ہے تو وہ صنعتی گھرانے ہیں۔ عام آدمی کو مہنگائی ، بیروزگاری اور بیماری کا تحفہ ملا ہے۔ ہندوستان کورونا کے معاملہ میں دنیا میں دوسرے نمبر پر آچکا ہے ۔ اگر حکومت کا تساہل جاری رہا تو ہندوستان دنیا میں پہلے نمبر پر آجائے گا۔ کیسس اور اموات کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ کے باوجود حکومت حقائق کی پردہ پوشی کرتے ہوئے صحت یاب ہونے والوں کی تعداد کی تشہیر کے ذریعہ عوام کو گمراہ کر رہی ہے۔ کورونا کے علاج اور احتیاطی تدابیر دونوں میں حکومت ناکام ہوگئی ۔ ایسے وقت جبکہ کیسس کی نوعیت سنگین ہوتی جارہی ہے اور عالمی ادارہ نے وباء کے دوسرے دور کی وارننگ دی ہے۔ ایسے میں تعلیمی اداروں کی کشادگی کا فیصلہ طلبہ کی زندگیوں سے کھلواڑ ہوگا۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا
سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا