سرکاری دواخانوں میں غریبوں کیلئے دوا نہیں

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کی حکمراں پارٹی اگر اپنے پیشرو کے زوال سے سبق نہ سیکھے تو پھر اس کا بھی حشر وہی ہوگا جو آج اقتدار سے محروم پارٹی کا ہے ۔ عشروں سے سخت ترین حالات کا شکار ریاست تلنگانہ اور اس کے عوام کو جو حکومت ملی ہے اس نے آمریت پسندی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں ۔ اس لیے کمیونسٹ پارٹی کے قائدین نے ٹی آر ایس حکومت کے آمرانہ سلوک اور من مانی پالیسیوں کی جانب توجہ دلائی ہے ۔ ریاست کے اقتصادی بحران کو سنبھالنے میں پریشان ٹی آر ایس حکومت کے لیے مانسون کی تاخیر کا خطرہ منڈلا رہا ہے ۔ ریاست میں خاطر خواہ بارش نہ ہوئی تو حکومت کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر جائے گا اور وہ گڈگورننس کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہوجائے گی ۔ ٹی آر ایس نے اپنی محدود صلاحیتوں اور وسائل کے باوجود ریاست کو ترقی دینے کا دعویٰ کیا ہے تو اس دعویٰ کے آئینہ میں ریاست کے سرکاری دواخانوں کی حالت زار کی جانب حکومت کی توجہ دلائی جائے تو اسے اپنے پیشرو حکومت کے زوال کے اسباب کا پتہ چلے گا کیوں کہ سابق کانگریس یا تلگو دیشم حکومتوں نے ریاست تلنگانہ کو نظر انداز کر کے رکھدیا تھا۔ نتیجہ میں آج دونوں پارٹیاں کانگریس اور تلگو دیشم کا تلنگانہ سے صفایا ہوا ہے ۔ ٹی آر ایس کے لیے یہ ایک سبق آموز تبدیلی ہے اگر اس نے اپنی کارکردگی کا دیانتدارانہ جائزہ لیا ہے تو اسے بہت جلد اچھے کام کرنے ہوں گے ۔ حکومت نے دوسری میعاد شروع ہوتے ہی ایک اچھا کام یہ کیا ہے کہ ریاست کے قدیم تاریخی دواخانہ عثمانیہ ہاسپٹل کی مرمت کے لیے فوری طور پر 25کروڑ روپئے جاری کرنے سے اتفاق کیا ہے ۔ اگر یہ رقم وعدہ کے مطابق فوری جاری کی گئی تو بوسیدگی کا شکار دواخانہ عثمانیہ کی عمارت کی مرمت بھی شروع ہوجائے گی ۔ عثمانیہ دواخانہ کے در و دیوار اور چھت گرنے کے خطرات پائے جاتے ہیں ۔ دواخانہ کے ڈاکٹرس ، نرس اور مریضوں کو اس عمارت میں ٹھہرے رہنا جان کو خطرے کے مترادف ہے ۔ ڈاکٹروں اور دواخانہ کے عملہ کے ارکان نے دواخانے کی عمارت کی بوسیدگی کی جانب توجہ دلاکر کئی مرتبہ احتجاج بھی کیا اور بہتر انفراسٹرکچر اور صاف ستھرا ماحول پیدا کرنے کا مطالبہ بھی کیا ۔ جس کے بعد ہی حکومت تلنگانہ نے 25 کروڑ روپئے جاری کرنے سے اتفاق کیا ۔ حکومت کا یہ اقدام قابل خیر مقدم ہے کیوں کہ میر عثمان علی خاں نے ریاست اور ہمسایہ ریاستوں سے تعلق رکھنے والے غریب مریضوں کے علاج کے لیے یہ دواخانہ قائم کیا تھا ۔

آج بھی یہ دواخانہ غریب مریضوں کا مسیحا ہے ۔ یہاں غریب افراد کا مفت علاج کیا جاتا ہے ۔ تلنگانہ کا اقتدار سنبھالنے کے ایک سال بعد چیف منسٹر کے سی آر نے بلند بانگ دعویٰ کئے تھے اور عثمانیہ دواخانہ کو منہدم کر کے نئی عمارت بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن اس تاریخی عمارت کو تباہ کرنے کے سی آر کے منصوبہ کی شدید مخالفت کی گئی تو انہوں نے اپنا منصوبہ ترک کرلیا اب 25 کروڑ کی رقم سے مرمت کا کام انجام دینے کا فیصلہ کیا ہے اگر یہ رقم بروقت جاری کی جائے تو دواخانہ کی مرمت کا کام شروع ہوگا ۔ دواخانہ کی عمارت اپنی بوسیدگی کی شکایت کررہی ہے ۔ اس کے علاوہ ریاست کے تمام پرانی عمارتوں کی مرمت توجہ طلب ہے ۔ عمارتوں کو بہتر بنانے کے ساتھ یہاں غریبوں کے علاج و معالجہ کے لیے درکار دیگر مسائل کی جانب توجہ دینا بھی ضروری ہوگیا ہے ۔ ریاست کے تقریبا سرکاری دواخانوں میں ڈاکٹروں کی کمی ، نرسوں اور دیگر عملہ کے ارکان کی کمی کے علاوہ عصری انفراسٹرکچر نہ ہونے سے مریضوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہونے کی شکایت پرانی ہے مگر اب سرکاری دواخانوں میں جان بچانے والی ادویات سے لے کر جنرل میڈیسن کی قلت بھی پائی جاتی ہے ۔ میڈیسن کی کمی کی شکایت کرتے ہوئے ڈاکٹرس غریب مریضوں کو خانگی میڈیکل ہالس سے دوا خرید کر لانے کے لیے زور دیتے ہیں ۔ حکومت کے آروگیہ شری ہیلت کیر اسکیم کے تحت بھی دواخانہ میں شریک مریضوں کو باہر سے دوا خریدنے کے لیے کہا جاتا ہے ۔ تلنگانہ میں غریب مریضوں کو کئی مسائل کا سامنا ہے ۔ اگر کوئی غریب بیمار پڑ جائے تو وہ میڈیکل چیک اپ کے لیے سرکاری دواخانہ کا رخ کرتا ہے ۔ جہاں اس کو خانگی دواخانوں کی طرح برتاؤ کر کے ادویات باہر سے لانے کے لیے پرچی دی جاتی ہے ۔ ٹی آر ایس حکومت نے عثمانیہ دواخانہ کو بری طرح نظر انداز کردیا ہے ۔ عمارت کی مرمت کے لیے صرف 25 کروڑ روپئے جاری کئے اور یہاں دواؤں کی قلت دیگر مشنریز کی کمی یا ناکارہ مشنریز کو درست کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ۔ ان دواخانوں میں ڈیوٹی انجام دینے والے دیانتدار ڈاکٹروں کو اس حکومت سے بے شمار شکایات ہیں اور اس مسئلہ کو دور کرنے میں حکومت کی لاپرواہی سے ناراض ہیں ۔ حال ہی میں کولکتہ میں ڈاکٹروں کی شدید ہڑتال کے بعد تلنگانہ کے ڈاکٹرس بھی بیدار ہوئے ہیں اگر تلنگانہ میں بھی حکومت کے خلاف ڈاکٹرس اُٹھ کھڑے ہوں تو پھر اچھی طرح سبق ملے گا ، مگر حکومت کو سابق حکمراں پارٹیوں کے سیاسی زوال کی جانب توجہ دینے کا یہ اہم موقع مل رہا ہے ۔ ایک ہونہار پارٹی ہی اپنی بقا کی فکر کے ساتھ عوام کی خدمت کرے گی ۔ اب بحث یہ ہورہی ہے کہ ٹی آر ایس حکومت دیگر پارٹیوں کے ارکان کو ایک کے بعد ایک ہڑپ کر کے بھی ڈکار نہ لے تو اس کا ہاضمہ خراب ہوجائے گا تو ٹی آر ایس کے لیڈرس بھی دوسری پارٹیوں میں شامل ہو کر اپنا ہاضمہ درست کرنے لگیں گے ۔ ٹی آر ایس نے کانگریس کے لیڈروں کو ہڑپ لیا تو اس کے کارکن بی جے پی میں شامل ہونے لگے ہیں ۔ حال ہی میں تانڈور کے وارڈ کونسلر نے ٹی آر ایس سے استعفیٰ دے کر اپنے حامیوں کے ساتھ حیدرآباد پہونچکر بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی ۔ بی جے پی میں ٹی آر ایس قائدین کی شرکت کا سلسلہ شروع ہوا ہے ۔ آئندہ انتخابات تک یہ سلسلہ ٹی آر ایس کو بھی اہم قائدین سے محروم کردے گا ۔ پھر بی جے پی اپنی پیشرفت میں شدت پیدا کرے گی ۔ وسائل سے مالا مال ہو کر بھی ٹی آر ایس مسائل میں گھر جائے گی ۔ اس کو جیسی کرنی ویسی بھرنی کہا جاتا ہے ۔ ٹی آر ایس نے اپنی بالا دستی کا خواب دیکھا تھا لیکن بی جے پی اس کی بالادستی کے خواب کو چکنا چور کرنے کی تیاری کرتی نظر آرہی ہے ۔ کانگریس کو پریشان کرنے والی ٹی آر ایس کو بی جے پی سے پریشانی لاحق ہے ۔ اس کو مستقبل کے امکانی خراب حالات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ حقیقی تبدیلی کے ذریعہ عوامی ایجنڈے کے مطابق کام کرے ۔ محض ناعاقبت اندیش پالیسیوں سے عوام کو گمراہ نہ کیا جائے ۔ مقام افسوس یہ ہے کہ عوام خون پسینے کی کمائی سے حکومت کو امور نظم و نسق چلانے کے لیے ٹیکس دیتے ہیں مگر اس کے بدلے میں لوگوں کو کسی قسم کی کوئی سہولت میسر نہیں ہے ۔ دوسری میعاد کے لیے منتخب ہونے کے بعد اس حکومت کا غرور مزید قوی ہوگیا ہے ۔
kbaig92@gmail.com