ڈرائیونگ کی اجازت کے علاوہ بیرون ملک حصول تعلیم اور پاسپورٹس کی تجدید کیلئے محرم کی اجازت کالزوم برخاست
ریاض 23 جون (سیاست ڈاٹ کام) سعودی عرب نے پیر کے دن اصلاحات کے آغاز کے ایک سال کی تکمیل پر سعودی خواتین کو پہلی بار ڈرائیونگ کا حق عطا کیا تھا۔ یہ اُس کے اصلاحی پروگرام کی ایک ممتاز خصوصیت ہے۔ اب قدامت پسند سعودی عرب اپنی انتہائی قدامت پسند شبیہ میں اصلاحات کرکے دنیا بھر میں ایک اعتدال پسند ملک کی حیثیت سے مشہور ہونا چاہتا تھا۔ اِس کی تمام پالیسیاں اسی سے متعلق ہیں اور بڑے پیمانے پر فیصلے خواتین کے طرز زندگی پر اثرانداز ہورہے ہیں۔ سعودی عرب میں محرم کا نظام قانونی سمجھا جاتا تھا اور خواتین کے تمام اُمور اُن کے والدوں، بھائیوں، شوہروں اور یہاں تک کہ بیٹوں کے اختیار میں تھے۔ خواتین کو اپنے قریب ترین مرد رشتہ دار سے اجازت حاصل کرنی پڑتی تھی اور اس کے بعد ہی وہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرسکتی تھیں۔ جولائی 2017 ء میں سعودی عرب کی وزارت تعلیم نے لڑکیوں کے لئے اسکولس کھولننے کا اعلان کیا جہاں پہلی بار جسمانی تعلیم کا اہتمام کیا گیا تھا اور اسلامی قوانین کے تحت جتنی آزادیاں تھیں، خواتین کو فراہم کی جانے لگی ۔ وزارت نے تاہم وضاحت نہیں کی تھی کہ کیا لڑکیوں کو اپنے محرموں سے ایسے اسکولس میں داخلے سے پہلے اجازت حاصل کرنی ہوگی۔ سعودی عرب میں صرف خواتین کے لئے کئی یونیورسٹیاں قائم کی گئی تھیں۔ محرم کے نظام کے تحت کئی تحدیدات عائد کی گئی تھیں۔ خواتین کو روزگار حاصل کرنے پر بھی تحدیدات تھیں جن میں نرمی پیدا کی گئی۔ سعودی عرب کی دولت کا انحصار ہنوز تیل کی پیداوار پر ہے۔
ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان جون 2017 ء میں بحیثیت سعودی حکمران اپنی ذمہ داریاں سنبھال چکے ہیں۔ اُنھوں نے ایک مالیاتی منصوبہ پیش کیا ہے جس میں ملازمتوں میں خواتین کا کوٹہ 2030 ء تک 22 تا 30 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ ان کے والد ملک سلمان نے ایک فرمان پر دستخط کئے اس کے مطابق خواتین کو تجارتی لائسنس کے لئے درخواست دینے کی اجازت دی گئی۔ سعودی پولیس میں خاتون عہدیداروں کا تقررکیا گیا۔ خواتین کو اپنے پاسپورٹس کی تجدید کے لئے قبل ازیں محرم کی اجازت حاصل کرنی پڑتی تھی، وہ محرم کی اجازت کے بغیر ملک سے باہر بھی نہیں جاسکتی تھیں۔ لیکن گزشتہ سال 24 جون کو خواتین نے پہلی بار ڈرائیور کی نشست سنبھالی اور بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لئے اجازت کا لزوم برخاست کردیا گیا۔ ڈرائیونگ پر امتناع کی برخاستگی کا بڑے پیمانے پر خیرمقدم کیاگیا اور اسے نئی سیاسی آزادیوں کے آغاز کا نقیب سمجھاگیا ہے۔