٭ رحف القنون جیسے کئی واقعات منظر عام پر نہیں آئے
٭ محمد بن سلمان کے خواتین کے تئیں
اصلاحات کے دعوؤں پر سوالیہ نشان
٭ آسٹریلیا میں پناہ گزین کی حیثیت کا حصول تقریباً یقینی
بنکاک۔ 9 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) سعودی عرب سے فرار ہونے والی خاتون رحف محمد القنون کو حکومت آسٹریلیا بحیثیت ایک پناہ گزین قبول کرنے تیار ہے جبکہ چہارشنبہ کو اقوام متحدہ نے بھی القنون کو پناہ گزین کا موقف عطا کئے جانے کا اشارہ دیا ہے ۔ دریں اثناء محکمہ اُمور داخلہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس بات کی توثیق کی کہ یو این ہائی کمشنر برائے رفیوجیز 18سالہ القنون کو بحیثیت ایک پناہ گزین تصور کرنے آسٹریلیا سے رجوع کیا تھا۔ القنون گزشتہ ہفتہ کے روز کویت سے بذریعہ طیارہ بنکاک پہنچی تھی۔ اس نے بنکاک سے آسٹریلیا جانے کا منصوبہ بنا رکھا تھا کیونکہ اس کے پاس آسٹریلیا کا سیاحتی ویزا تھا، لیکن جب رحف کو تھائی حکام نے روک لیا تو اس نے کویت جانے والے طیارہ میں سوار ہونے سے انکار کردیا اور اپنے آپ کو ایک ہوٹل کے کمرے میں بند کرلیا۔ اپنی داستان کو سوشیل میڈیا کے ذریعہ عام کرنے کے بعد اسے اقوام متحدہ انسانی حقوق کے نگران کاروں کے حوالے کردیا گیا کیونکہ رحف نے واضح طور پر کہا کہ اگر اسے اس کے وطن واپس بھیجنے کی کوشش کی گئی تو اسے اندیشہ ہے کہ اس کا وہاں قتل کردیا جائے گا۔ حکومت آسٹریلیا نے رحف کو پناہ گزین کا موقف دینے پر غوروخوض کیا جیسا کہ اقوام متحدہ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ رحف کے معاملے پر بھی بالکل اسی طرح غوروخوض کیا جائے گا جس طرح اقوام متحدہ کے ذریعہ رجوع کئے گئے دیگر معاملوں پر کیا جاتا ہے۔ آسٹریلیا کے محکمہ اُمور داخلہ نے یہ بات بتائی۔ ان تمام حالات کے پیش نظر اب یہ توقع کی جارہی ہے کہ حکومت آسٹریلیا، القنون کے معاملے پر ہمدردانہ غوروخوض کرے گی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بیجا نہ ہوگا کہ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان نے ملک میں متعدد اصلاحات کا نفاذ کیا ہے جن میں خصوصی طور پر سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دیتے ہوئے دیگر کئی مراعات بھی تفویض کی گئی ہیں لیکن القنون کے معاملے نے اصلاح پسند محمد بن سلمان کے اس دعوے پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے کہ سعودی میں اب خواتین کو ہر طرح کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ سعودی عرب میں آج بھی خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کا سلسلہ جاری ہے جس سے خوف زدہ ہوکر خواتین راہ فرار اختیار کررہی ہیں اور بیرون ملک پناہ گزین کی حیثیت سے بھی زندگی گزارنے تیار ہیں۔ دوسری طرف ہیومن رائیٹس کے جہد کاروں کا کہنا ہے کہ رحف کے معاملے کو چونکہ تشہیر مل گئی لہذا یہ ہر ایک کی توجہ کا مرکز بن گیا جبکہ ایسے دیگر کئی واقعات ہیں جن کی کوئی تشہیر نہیں کی گئی۔ دریں اثناء تھائی لینڈ کے امیگریشن پولیس سربراہ میجر جنرل سوراچاتے ہکپرن نے بتایا کہ القنون کے والد اور بھائی بنکاک آئے لیکن القنون نے ان سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا تھا۔