قطر میں ترک فوجیوں کی تعداد میں اضافہ محمد بن سلمان کو مزید مشعل کرنے کی وجہ بن سکتا ہے
ریاض /استنبول۔19 ۔ اگست (سیاست ڈاٹ کام) سعودی عرب اور اسکے حلیف کے خلاف قطر اور ترکی کی نئی محاذ آرائی سے خطے میں نئی کشیدگی کے آثار نمایاں ہورہے ہیں کیونکہ جہاں ایک جانب سعودی عرب نے قطر پر متعدد پابندیاں عائد کررکھی ہیں وہیں اب قطر کی مزید مدد کیلئے ترکی نے نئے اقدامات پر غورشروع کردیا ہے۔سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک نے قریب دو برس سے قطر پر پابندیاں عاید کر رکھی ہیں۔ ان تحدیدات کے منصوبہ ساز سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ہیں اور انہوں نے ناکہ بندی ختم کرنے کے لیے قطر سے جو مطالبات کر رکھے ہیں ان میں 2016 میں قطر میں قائم کی گئی ایک عسکری بیس کو بند کیے جانے کا مطالبہ بھی شامل ہے لیکن قطری امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے دیگر مطالبات کے ساتھ اس مطالبے کو بھی مسترد کر دیا تھا۔ترک اخبارحریت نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ سعودی مطالبے کے جواب میں قطری امیر نے اپنے ملک میں ایک نئی ترک فوجی چھاؤنی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نئی چھاؤنی کا آغاز رواں موسم خزاں میں کیا جائے گا اور اس کے لیے منعقدہ تقریب میں ترک صد رجب طیب اردوغان بھی شرکت کریں گے۔اس وقت تک قطر میں تین ہزار ترک فوجی موجود ہیں تاہم تازہ رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ نئی چھاؤنی کے قیام کے بعد مزید کتنے ترک فوجی قطر بھیجے جائیں گے۔ اخبار نے قطری ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ ترکی اپنے اتحادی خلیجی ملک میں کم از کم پانچ ہزار مزید فوجی تعینات کرے گا۔قطر میں مزید ترک فوجی تعینات کر کے دوحہ اور انقرہ سعودی ولی عہد اور ان کے دیگر اتحادیوں کو کچھ واضح پیغامات پہچانا چاہتے ہیں۔صدر اردوغان چاہتے ہیں کہ وہ یہ واضح کر دیں کہ ترکی کی خراب ہوتی ہوئی معاشی صورت حال کے باوجود وہ مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا عزم رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ عسکری موجودگی میں اضافہ خلیج فارس میں کشیدگی میں اضافے کے صورت میں خطے میں ترکی کے معاشی مفادات کے تحفظ کا بھی سبب بن سکتا ہے۔قطرکے امیر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ناکہ بندی ان کی پالیسیوں پر اثر انداز نہیں ہو گی اور وہ نہ تو الجزیرہ چینل بند کریں گے اور نہ ہی صدر اردوغان سے اپنے تعلقات ختم کریں گے۔سعودی تحدیدات کے بعد ترکی قطر کا اہم ساتھی بن کر سامنے آیا اور دونوں ممالک نے باہمی معاشی تعلقات میں بھی نمایاں اضافہ کر رکھا ہے۔ دونوں ممالک نے صومالیہ اور لیبیا کے بحرانوں میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر عملی اقدامات کیے۔قطر میں ترک فوجیوں کی تعداد میں اضافہ محمد بن سلمان کو مزید اشتعال دلانے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ سعودی ولی عہد ترکی اور قطر پر اخوان المسلمین جیسی مذہبی تنظیموں کی حمایت کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ دونوں ممالک مشرق وسطیٰ میں کئی عرب بادشاہتوں کو ختم کر کے وہاں اسلامی نظام لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودی اور اماراتی شہزادے اس کے برعکس بادشاہی حکمرانوں کو مزید مضبوط بنا کر خطے میں استحکام لانے کے لیے کوشاں ہیں جس کا ایک مظہر سوڈان کی صورت حال میں دیکھا گیا۔خلیجی اتحادیوں کے علاوہ دیگر عرب ممالک بھی کئی برسوں سے تمیم اور اردغان کی خارجہ پالیسیوں پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ابتدا میں قریب سبھی ممالک نے سعودی عرب اور اس کے خلجی اتحادیوں کا ساتھ بھی دیا۔ لیکن قطر کے خلاف محمد بن سلمان کے سخت تر اقدامات سے بھی عرب حکمران ناراض ہیں۔ حالیہ مہینوں کے دوران مراکش اور اردن کے بادشاہوں نے ریاض سے دوری اختیار کر لیا ہے۔