وینکٹ پارسا
صدر کانگریس سونیا گاندھی 9 دسمبر کو اپنی عمر کے 75 ویں سال میں داخل ہو رہی ہیں۔ اس طرح یہ ان کی عمر کا امرت اتسو یا پلاٹینیم جوبلی سال ہے۔ جہاں تک سونیا گاندھی کی شخصیت اور ان کی سیاسی زندگی کا سوال ہے انہیں ہندوستان کی قدیم ترین سیاسی جماعت کانگریس کی سب سے زیادہ مدت تک صدر رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے کانگریس کی تاریخ میں زائد از دو دہوں تک پارٹی صدر رہنے والی لیڈر کا اعزاز حاصل کیا۔ ویسے بھی کانگریس میں کئی خواتین عہدہ صدارت پر فائز ہوئی ہیں۔ اس سے پہلے بھی دو بیرونی نژاد خواتین اینی بیسنٹ اور نیلی سین گپتا بھی کانگریس صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکی ہیں۔ خواتین صدر کے لحاظ سے دیکھاجائے تو سونیا گاندھی پانچویں خاتون ہیں۔ دیگر دو خواتین میں سروجنی نائیڈو اور سونیا گاندھی کی ساس اندرا گاندھی شامل ہیں جنہوں نے کانگریس کے عہدہ صدارت پر فائز رہتے ہوئے پارٹی کو مستحکم بنانے میں غیر معمولی رول ادا کیا تھا۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ سونیا گاندھی دو دہوں تک کانگریس کی صدر رہنے کے بعد اس عہدہ سے مستعفی ہونے کے لئے تیار ہیں۔ ایسے میں یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم ہندوستانی سیاست میں ان کے اہم کردار سے متعلق آپ کو واقف کروائیں۔
سونیاگاندھی نہ صرف ایک غیر سیاسی پس منظر سے تعلق رکھتی ہیں بلکہ انہوں نے کبھی بھی کوئی سیاسی عزائم نہیں رکھے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ کیمبریج یونیورسٹی کے ٹرینیٹی کالج میں انگریزی زبان کا کورس کرنے کے دوران بھی انہوں نے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیا بلکہ ایک ریسٹورنٹ میں ویٹرس کا جزوقتی کام کیا۔ سونیاگاندھی کی ایک خوبی یہ ہے کہ انہوں نے کبھی بھی اپنے خاندانی پس منظر کو نہیں چھپایا اور نہ ہی اپنے ماضی کو چھپانے کی کوشش کی۔ کئی مرحلوں پر سونیا گاندھی نے اپنے وسیع الذہن اور وسیع القلب ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع النظر ہونے کا ثبوت دیا۔ مشکلات کے دوران بھی وہ عزم و حوصلے کے ساتھ کھڑی رہیں۔ 2004 میں کانگریس کی شاندار کامیابی کے بعد صدر جمہوریہ نے انہیں تشکیل حکومت کی دعوت دی لیکن انہوں نے اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اقتدار کو ٹھکرانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ تاہم سونیا گاندھی نے عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہونے کی پیشکش ٹھکراتے ہوئے اپنے کردار کا ثبوت دیا ہے۔ انہوں نے کبھی بھی اقتدار کی خواہش ظاہر نہیں کی اور جب بھی اقتدار ان کی پارٹی کو ملا اس اقتدار کو عوام بالخصوص خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے استعمال کیا جس سے ان کی شرافت کا اندازہ ہوتا ہے۔
سونیا گاندھی نے اقتدار کی راہداریوں میں رہتے ہوئے بھی وزارت عظمیٰ کا عہدہ قبول نہیں کیا، حالانکہ تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ تخت و تاج کے لئے خون ریز لڑائیاں ہوتی ہیں لیکن سونیا گاندھی کے معاملہ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اقتدار اپنے ہاتھ میں رکھنے کے باوجود عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہونا مناسب نہیں سمجھا اس طرح سونیا گاندھی نے بڑی آسانی سے ایک بڑی قربانی دی۔ سونیا گاندھی نے عہدہ وزارت عظمیٰ کو ٹھکراتے ہوئے ایک غیر معمولی مثال قائم کی حالانکہ کوئی بھی اقتدار کو آسانی سے نہیں چھوڑتا اور بڑی تیزی سے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ راہول گاندھی نے ایک مرتبہ یہ انکشاف کیا تھا کہ جس وقت 2013 میں انہوں نے کانگریس کے نائب صدر کے عہدہ کی ذمہ داری قبول کی اور اپنے عہدہ کا جائزہ لیا اس وقت سونیا گاندھی نے انہیں انتباہ دیا تھا کہ اقتدار ایک زہر ہے۔ ایسا ہی کچھ سردار پٹیل نے 1948 میں حیدرآباد کے فتح میدان میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت ایک نشہ ہے۔
یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ہندوستان میں ان شخصیتوں کا احترام و وقار کرنا بھی ایک روایت ہے جو رضاکارانہ طور پر اقتدار سے دور ہو جاتے ہیں یا اقتدار چھوڑ دیتے ہیں اور جہاں تک اقتدار سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا سوال ہے یہ سادھو، سنت اور بزرگ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں سادھو سنتوں اور بزرگوں کا جنگجوؤں اور بادشاہوں سے زیادہ احترام کیا جاتا ہے۔ خود ہمارے بھکتوں میں مہاتما گاندھی جو چاہتے عہدہ حاصل کرسکتے تھے لیکن آزاد ہندوستان میں گاندھی جی نے خود کو اقتدار سے دور رکھا اور وہ اقتدار کے جال میں پھنسنے سے محفوظ رہے۔ سونیا گاندھی نے بھی ہندوستان کی اس بہترین روایت کی پاسداری کی جو اقتدار کی سیاست سے دور رہنے سے متعلق ہے۔ انہوں نے سیاست کو خدمات اور سماجی تبدیلی کا ایک ذریعہ بنایا۔ سونیا گاندھی نے اس وقت بھی اقتدار کی جانب اپنا میلان نہیں دکھایا جب 31 اکتوبر 1984 کو اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو قتل کیا گیا۔ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسس (AIIMS) نئی دہلی میں اندرا گاندھی کی نعش پڑی ہوئی تھی اور سونیا گاندھی اپنے شوہر راجیو گاندھی کو دلاسہ دینے کے ساتھ عہدہ وزارت عظمیٰ قبول کرنے کی ترغیب دے رہی تھی اور پھر انہوں نے اپنے شوہر کے فیصلے کو تسلیم کیا۔
تین مرتبہ عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے سے انکار
سونیا گاندھی نے 1991 ، 1994 اور پھر 2004 میں تین مرتبہ عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کی پیشکش ٹھکرادی۔ تاملناڈو کے سری پرمبدور میں 21 مئی 1991 کو راجیو گاندھی کے خطرناک خودکش بم دھماکہ میں مارے تھے۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی (CWC) نے متفقہ طور پر سونیا گاندھی کو کانگریس کا صدر منتخب کیا اور 1991 میں وزیر اعظم بننے کا یہ ایک یقینی ذریعہ تھا۔ دوسرا کوئی ہوتا تو وہ بنا کسی ہچکچاہٹ کے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار پر فائز ہو جاتا لیکن سونیا گاندھی نے مختلف ردعمل کا اظہار کیا اور بڑی ہی انکساری کے ساتھ عہدہ وزارت عظمیٰ قبول کرنے سے انکار کردیا۔ خود وزیر اعظم بننے کی بجائے سونیا گاندھی نے پی وی نرسمہا راؤ کو وزیر اعظم بنایا جو اس وقت کانگریس کے سینئر ترین لیڈر تھے اور راجیو گاندھی کے بااعتماد آدمی تھے۔ 1994 میں دوسرا موقع ملا جب سینئر لیڈر ارجن سنگھ نے علم بغاوت بلند کیا اور کانگریس سے دوری اختیار کی۔ باغی قائدین چاہتے تھے کہ سونیا گاندھی وزیر اعظم کا عہدہ قبول کرے۔ تاہم سونیا نے نہ صرف ان کے مطالبہ کو سختی سے مسترد کردیا بلکہ پورے دل سے وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ کی تائید و حمایت کی۔ 2004 کے عام انتخابات میں سونیا گاندھی نے یو پی اے اتحاد کی سربراہ کی حیثیت سے کانگریس کو اقتدار دلانے میں نمایاں کردار ادا کیا اور پھر انہیں کانگریس پارلیمانی پارٹی
(CPP)
کا لیڈر منتخب کرلیا گیا لیکن شردپوار نے 1999 میں سونیا گاندھی کے بیرونی نژاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اسی دعوے کی بنیاد پر کانگریس کو خیرباد کہا تھا لیکن دلچسپی کی بات یہ ہے کہ 2004 میں شردپوار نے ہی یو پی اے پارلیمانی پارٹی کی حیثیت سے سونیا گاندھی کا نام تجویز کیا جس کے بعد صدر جمہوریہ نے انہیں وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف لینے اور حکومت تشکیل دینے کے لئے مدعو کیا۔ لیکن سونیا گاندھی نے اپنی ضمیر کی آواز پر فیصلہ کرتے ہوئے وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہونے سے انکار کردیا۔ اس انکار کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ کانگریس یا اس کی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کررہی ہیں بلکہ انہوں نے کئی اہم قوانین اور اسکیمات کو آگے بڑھانے میں بڑا ہی سرگرم رول ادا کیا ساتھ ہی حکمراں یو پی اے کی صدارت کرتے ہوئے سیاسی نظم میں بھی ایک بڑا کردار ادا کیا۔ 1