نئی دہلی، 14 اگست (یو این آئی) سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر کے مکمل ریاست کا درجہ بحال کرنے کی درخواست پر جمعرات کے روز مرکز سے جواب طلب کیا۔ چیف جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس کے ونود چندرن کی بنچ نے مرکز کی طرف سے پیش ہونے والے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے کہا کہ وہ اس معاملے میں ظہور احمد بھٹ اور عرفان حفیظ لون کی درخواستوں پر آٹھ ہفتوں کے اندر اپنا موقف پیش کریں۔ بنچ کے سامنے مسٹر تشار مہتا نے کہا کہ ریاستی درجہ بحال کرنے کا فیصلہ کرنے کے ضمن میں بہت سے حقائق پر غور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے (حکومت) انتخابات کے بعد مکمل ریاست کا درجہ دینے کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن ملک کے اس علاقے میں صورتحال کچھ عجیب ہے ۔ اس پر سینئر ایڈوکیٹ گوپال شنکر نارائنن نے درخواست گزاروں کی طرف سے کہا کہ مرکزی حکومت نے آرٹیکل 370 کو رد کرنے کے جواز پر سماعت کے دوران مکمل ریاست کا درجہ بحال کرنے کے سلسلے میں اس عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی۔ اس یقین دہانی پر اب 21 ماہ گزر چکے ہیں۔ ان کی دلیل پر بنچ نے کہا، “پہلگام (دہشت گردانہ حملہ) میں جو کچھ ہوا اسے آپ نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں۔ پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو کو ریاست کے درجہ کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوگا۔ واضح ر ہے کہ 22 اپریل 2025 کو دہشت گردوں کے ایک گروپ نے پہلگام میں 26 سیاحوں کو ان کا مذہب پوچھ کر قتل کر دیا تھا۔
جس کے بعد پاکستان میں دہشت گردوں نیٹ ورک کے خلاف ‘آپریشن سندور’ کے تحت مسلح آپریشن کیا گیا تھا۔
اکتوبر 2024 میں دائر درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جموں و کشمیر کے ریاستی درجہ کو بروقت بحال نہ کرنا وفاقیت کے نظریے کی خلاف ورزی ہے جو آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے ۔
قابل ذکر ہے کہ 5 اگست 2019 کو “جموں و کشمیر کی تنظیم نو ایکٹ- 2019” کی منظوری کے بعد، جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ ختم کرکے اسے مرکز زیر انتظام دو علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کردیا گیا تھا۔