سکندرآباد ، ملکاجگری اور چیوڑلہ میں بی جے پی کو روکنا صرف مسلمانوں سے ممکن

   

شہری علاقوں پر زعفرانی پارٹی کی توجہ، سیکولر ووٹ تقسیم ہونے سے بچانے کی ضرورت، پرامن ماحول کو خطرہ لاحق
حیدرآباد ۔ یکم اپریل (سیاست نیوز) بی جے پی نے تلنگانہ کی 10 لوک سبھا نشستوں پر کامیابی کا نشانہ مقرر کرلے شہری علاقوں پر مشتمل پارلیمانی حلقوں سکندرآباد ، ملکاجگری اور چیوڑلہ پر توجہ مرکوز کی ہے ۔ گزشتہ لوک سبھا چناؤ میں بی جے پی کو 4 حلقہ جات نظام آباد ، عادل آباد ، سکندرآباد اور کریم نگر سے کامیابی حاصل ہوئی تھی ۔ مذکورہ چاروں حلقہ جات میں بی جے پی نے دیہی علاقوں کے مقابلہ شہری علاقوں میں زیادہ ووٹ حاصل کئے جو اس کی کامیابی میں فیصلہ کن ثابت ہوئے ۔ بی جے پی نے تلنگانہ میں شہری علاقوں میں ہندوتوا ایجنڈہ کو فروغ دے کر ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے ۔ گریٹر حیدرآباد حدود میں شامل چاروں لوک سبھا حلقہ جات میں پارٹی نے مضبوط امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے۔ بی جے پی کو کامیابی کی امید اس لئے بھی ہے کہ مذکورہ حلقہ جات میں بی آر ایس کا موقف کمزور ہوا ہے۔ اسمبلی چناؤ میں گریٹر حیدرآباد کی 26 اسمبلی نشستوں میں کانگریس کا مظاہرہ مایوس کن رہا تھا ۔ کانگریس کو ایک بھی نشست پر کامیابی نہیں ملی تھی ۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ بی آر ایس کے ووٹ بینک کو ہندوتوا ایجنڈہ کی طرف راغب کیا جائے جس کیلئے نریندر مودی کی موافق ہندو پالیسیوں کی تشہیر کی جارہی ہے۔ اسمبلی چناؤ میں کمزور مظاہرہ کے باوجود کانگریس سکندرآباد ، چیوڑلہ و ملکاجگری میں کامیابی کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہی ہے لیکن مسلم اقلیت کی تائید کے بغیر کانگریس کو نشانہ کی تکمیل آسان نہیں رہے گی۔ بی جے پی نے چیوڑلہ سے کونڈا وشویشور ریڈی ، ملکاجگری سے ایٹالہ راجندر اور سکندرآباد سے مرکزی وزیر کشن ریڈی کو امیدوار بنایا ہے۔ کشن ریڈی بی جے پی کے ریاستی صدر ہیں اور سکندرآباد لوک سبھا حلقہ پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ گریٹر حیدرآباد میں کانگریس کے کمزور موقف کے باعث پارٹی نے بی آر ایس کے مضبوط قائدین کو کانگریس میں شامل کرکے کامیابی کا منصوبہ بنایا ہے ۔ چیوڑلہ سے بی آر ایس کے موجودہ ایم پی رنجیت ریڈی کو کانگریس نے اپنا امیدوار بنایا ہے ۔ سابق وزیر مہیندر ریڈی کی اہلیہ سنیتا مہیندر ریڈی کو ملکاجگری کا ٹکٹ دیا گیا ۔ سکندرآباد میں کشن ریڈی سے مقابلہ کیلئے خیریت آباد کے بی آر ایس رکن اسمبلی ڈی ناگیندر کو منتخب کیا گیا۔ ناگیندر نے تاحال اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ نہیں دیا اور تکنیکی اعتبار سے ان کیلئے دشواریاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ کانگریس نے بھی ہنگامی طور پر متبادل منصوبہ تیار رکھا ہے ۔ اگر ناگیندر اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ نہیں دیتے ہیں تو حیدرآباد کے سابق میئر بی رام موہن کو امیدوار بنایا جاسکتا ہے۔ چیوڑلہ ، ملکاجگری اور سکندرآباد میں مسلم رائے دہندوں کا فیصد 10 تا 13 بتایا جاتا ہے اور بی جے پی کی کامیابی کو صرف مسلمانوں کی متحدہ رائے دہی روک سکتی ہے۔ تینوں حلقہ جات میں چونکہ کانگریس کا موقف کمزور ہے ، لہذا بی آر ایس کیڈر کو کانگریس کی تائید کیلئے راغب کرنے میں دشواریوں کا سامنا ہے ۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ گریٹر حیدرآباد کے تینوں حلقہ جات پر قبضہ جماکر شہری علاقوں میں پارٹی کو توسیع دے ۔ موجودہ صورتحال میں کانگریس کا واحد سہارا مسلمان ہوسکتے ہیں۔ اگر تینوں حلقہ جات کے مسلم رائے دہندے متحدہ کانگریس کے حق میں ووٹ کا استعمال کریں تو بی جے پی کے بڑھتے قدموں کو روکنے میں مدد ملے گی۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ ملک میں بڑھتے ہوئے نفرت کے ماحول کے پیش نظر تلنگانہ کو فرقہ پرست اور نفرت کی سیاست سے محفوظرکھنے کیلئے مسلمانوں کو اپنی رائے دہی کے فیصد میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اگر تینوں لوک سبھا حلقوں پر بی جے پی کا قبضہ ہوتا ہے تو پھر گریٹر حیدرآباد اور اطراف کے علاقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے واقعات روز کا معمول بن جائیں گے۔ بی جے پی کو کامیاب کرنے کیلئے آر ایس ایس اور دیگر ہندو تنظیمیں پہلے ہی سے متحرک ہوچکی ہیں۔ 1