رام پنیانی
’آر ایس ایس‘ کے نظریہ ساز اور قائدین وقفے وقفے سے بیان کرتے رہتے ہیں کہ انڈیا ’ہندو راشٹر‘ ہے۔ یہ بات مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں، سکھوں اور دستورِ ہند پر ایقان رکھنے والی تمام برادریوں کیلئے نہایت تکلیف دہ رہی ہے۔ حالیہ دسہرہ کے موقع پر جب سربراہ آر ایس ایس موہن بھاگوت نے اپنی گھنٹہ بھر طویل تقریر میں اسی ضابطہ ؍ قاعدہ کا اعادہ کیا، بڑی تعداد میں سکھ تنظیموں اور دانشوروں نے اس پر اپنی مخالفت کا اظہار کیا اور اس بیان کے خلاف کئی مقامات پر احتجاجوں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ ممتاز پنجابی اخبارات جیسے ’پنجابی ٹربیون‘ اور ’نوا زمانہ‘ نے اس بیان پر اپنے اداریوں میں سخت الفاظ میں تنقید کی ہے۔ نیز شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی (ایس جی پی سی) اور شرومنی اکالی دل (ایس اے ڈی) جو این ڈی اے کا حصہ ہے اور بی جے پی کی حلیف رہی ہے، ان دونوں کی طرف سے بھی مسٹر بھاگوت کے بیان پر سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ اکال تخت کے کارگزار جتھیدار گیانی ہرپریت سنگھ نے کہا کہ انھیں آر ایس ایس کی حرکتوں سے اِس ملک میں انتشار پیدا ہونے کا یقین ہے۔ انھوں نے امرتسر میں دوشنبہ کو میڈیا کو بتایا کہ آر ایس ایس قائدین کے بیانات اس ملک کے مفادات میں نہیں ہیں۔ نیز پنجاب لوک مورچہ کے سربراہ امولک سنگھ نے بھی سخت زبان میں نشاندہی کی کہ اس طرح کا بیان بڑی سازش کا حصہ ہے اور چوکس ہوجانے کے اشارے ضرور واضح ہوجانا چاہئے۔
بھاگوت کے بیان کیخلاف سکھ تنظیموں کے سخت ردعمل کی نمایاں وجہ ہے۔ سکھوں کو آر ایس ایس کی جانب سے ہندومت کا حصہ باور کرایا جارہا ہے، لہٰذا ان تنظیموں کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ سکھوں نے اس طرح کا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ماضی میں بھی ہندو قوم پرست تنظیموں کی طرف سے اسی نوعیت کے بیانات کو یونہی مخالفت اور تنقیدوں کا سامنا ہوا ہے۔ 2000ء میں جب کے سدرشن ’سرسنگھ چالک‘ تھے، انھوں نے کہہ دیا تھا کہ سکھ مت ہندو مذہب کا فرقہ ہے اور خالصہ کی تشکیل ہندوؤں کو مغل جبر و استبداد سے محفوظ رکھنے کیلئے کی گئی تھی۔ آر ایس ایس نے ایک تنظیم ’راشٹریہ سکھ سنگت‘ تشکیل بھی دی تاکہ سکھ مت کو ہندو مت میں ضم کرلینے کی کوشش کی جائے۔ اس پر پنجاب میں پہلے بھی احتجاج کئے گئے ہیں۔
سنت گرو نانک کے ذریعے سکھ مت کی ابتداء ہندوستان میں سولہویں صدی کی بڑی تبدیلیوں میں سے ہے۔ گرونانک کی تعلیمات موجودہ برہمنیت کے پس منظر میں ہیں، جس کے وہ اور اُن کے جانشین مخالف رہے۔ سکھ مت کی تعلیمات خاص طور پر بھکتی۔ صوفی سنتوں کا اثر رکھتی ہیں۔ آخرالذکر عقیدہ مساواتِ انسانی کی دعوت دیتے ہیں، جو برہمنی کٹرپسندی اور عدم مساوات کے اقدار سے بالکلیہ پرے ہے، جس کے تعلق سے وہ آمرانہ رویہ اختیار کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ گرو نانک کو بالخصوص سنت کبیر اور بابا فرید سے تحریک حاصل ہوئی تھی۔سکھ مت کو مختلف ذرائع سے تحریک ملی، اس کی تعلیمات میں انسانیت اور تمام انسانوں کیلئے مساوات پر توجہ مرکوز کی گئی۔ نانک نے راسخ الاعتقاد مسلمانوں کیساتھ ساتھ ہندومت پر نکتہ چینی کی اور لچک دار بین برادری رشتوں پر زور دیا جن کی اساس اسلام اور ہندومت سے مطابقت رکھنے والی مذہبی شکلیں ہوں۔ ان کی تعلیمات کسی سطح پر دونوں مذاہب کے اقدار کی آمیزش ہیں، جیسے ہندومت کا عقیدۂ دوسرا جنم ؍ اوتار اور نظریۂ کرما، اور اسلام سے خدا کی یکتائی اور عبادت میں اجتماع کا اہتمام کرنا۔ سکھ گروؤں نے ذات پات، گاؤ پوجا اور مقدس دھاگے جیسے عقیدے کی مخالفت کی ہے۔ جیسے جیسے یہ مذہب اُبھرتا گیا، اس کی اپنی شناخت فروغ پائی جس میں ’گرو گرنتھ صاحب‘ اس کی ضخیم کتاب ثابت ہوئی اور دیگر رواج اختیار کئے گئے جن کا بین برادری ربط و ضبط میں پوری شدت سے زور دیا گیا ہے۔
سکھ مت کے تعلق سے آر ایس ایس کا ہندو مت کا فرقہ ہونے کا دعویٰ ہندو قوم پرستی کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اس کی شروعات ساورکر کی جانب سے ہندو کی تشریح کے ساتھ ہوتی ہے، جہاں ہندو وہ ہے جس کیلئے یہ سرزمین دریائے سندھ سے سمندروں تک پھیلی ہوئی ہے، یہ ان کی مقدس اور آبا و اجداد کی سرزمین ہے۔ یہ تشریح بڑی ہوشیاری سے مسلمانوں اور عیسائیوں کو ان لوگوں کے گروپوں سے علحدہ کردیتی ہے جو اس سرزمین میں بعض حصوں کی ملکیت رکھتے ہیں۔ مزید آگے بڑھتے ہوئے اسلام اور عیسائیت پر اس سرزمین کیلئے نہایت قدیم ہونے کے باوجود ’بیرونی مذاہب‘ کا ٹھپہ لگایا گیا ہے۔ کوشش ہے کہ تمام غیرمسلم و غیرعیسائی برادریوں کو ’ہندو راشٹر‘ کیلئے سیاسی طور پر یکجا کیا جائے۔ وقت کے ساتھ سیاسی تبدیلیوں کے سبب تشریحات بدلتی رہیں۔ ابتدائی طور پر لفظ ’ہندو‘ کو یہ سرزمین کیلئے یوں استعمال کیا گیا کہ وہ دریائے سندھو سے سمندروں تک پھیلی ہوئی ہے، اب کوشش ہے کہ تمام دیگرکو ہندوتوا سیاست میں شامل کرلیا جائے۔ چنانچہ اب اپنے منصوبوں کے مطابق مسلمانوں اور عیسائیوں کو تک ہندو کہا جارہا ہے۔ یہ چال ہے۔
سب سے پہلے ہر کسی کو ہندو قرار دیا جائے اور پھر ہندو شناختی علامتوں گائے، گیتا، گنگا، لارڈ رام کو ان کے اوتاروں کی حیثیت سے ان پر مسلط کیا جائے۔ یہ مذہب کی آڑ میں سیاسی مداخلت ہے۔ مرلی منوہر جوشی جب صدر بی جے پی (1990ء) بنے تھے، انھوں نے ہوشیاری سے تمام مسلمانوں کو احمدیہ ہندو اور تمام عیسائیوں کو کرسٹی ہندو کہا تھا۔ ان کے ضابطوں؍ قاعدوں کیساتھ متعدد مسائل ہیں۔ وہ جو الجھن پیدا کرنے کوشاں ہیں، وہ بھی بہت ہیں۔ جین برادری کو اقلیتی درجہ کیلئے مطالبہ طویل جدوجہد سے دوچار ہے۔ بودھ مت یا سکھ مت کے پیرو کسی صورت اپنی مذہبی شناخت فراموش نہیں کرسکتے اور نہ اس سے دستبردار ہوسکتے ہیں۔ ماضی میں بھی سکھ شناخت اور پنجابی زبان کو ماند کرنے کی کوششیں ہوئی ہیں۔اس تناظر میں بھائی کہن سنگھ نے ایک کتاب ’’ہم ہندو نہیں‘‘ لکھی۔ آر ایس ایس سازش کے تحت انھیں ’کیش دھاری ہندو‘ (ایسے ہندو جو اپنے بال نہیں کاٹتے، لمبے بال اور داڑھی چھوڑتے ہیں) قرار دیتی ہے، لیکن خود سکھوں کا نظریہ ہے کہ ان کے اعمال مذہبی بناء پر ہیں۔ اس لئے کئی سکھ نظریہ سازوں نے واضح بیان کیا ہے کہ ہر ہندوستانی کو اس کی اپنی مرضی کا مذہب اختیار کرنا چاہئے اور آر ایس ایس کو سکھوں پر ہندو اُصولوں کو مسلط کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے، جن کی روایات امتزاج ضدین اور برہمنی اصولوں سے پرے رہے ہیں۔ اسی کی مطابقت میں گرو گرنتھ صاحب ’سنت روایت‘ پیش کرتی ہے جو صوفی وبھکتی دونوں کا امتزاج ہے۔
یاد کیجئے کہ میاں میر کو ’گولڈن ٹمپل‘ کا سنگ بنیاد رکھنے کیلئے مدعو کیا گیا تھا، جو بڑا سکھ گردوارہ ہے، جہاں بین برادری کھانے کا اہتمام ذات پات اور مذہبی بندشوں سے ہٹ کر برادریوں کے اتحاد کا نقیب ہے۔ آر ایس ایس کی ملحقہ تنظیم راشٹریہ سکھ سنگت پنجاب میں سرگرم ہے اور یہ بات پھیلا رہی ہے کہ سکھ مت دراصل ہندومت کا فرقہ ہے۔ آر ایس ایس کا ہندوتوا اور ہندو قوم پرستی کا ایجنڈا جس کی بنیاد برہمنی اقدار ہے، اس سے کافی مختلف ہے جو کچھ سکھ مت کا عقیدہ ہے۔ لہٰذا، کوئی تعجب نہیں کہ زیادہ تر سکھ گروپ اور نظریہ ساز یک آواز میں اس بیان کی مخالفت کررہے ہیں کہ ’’انڈیا ’ہندو راشٹر‘ نہیں ہے‘‘۔٭
[email protected]