سیکھ نہ پایا میں میٹھے جھوٹ کا ہنر

   

سید حمایت علی ناصف
بہار اسمبلی چناؤ 2025 میں این ڈی اے نے زبردست کامیابی حاصل کرلی۔ ریاست میں حکومت سازی کے لئے صرف 122 نشستوں پر کامیابی ضروری تھی لیکن بہار کے عوام نے سخی حاتم کی سخاوت کا دل کھول کر ثبوت دیتے ہوئے 202 نشستوں سے مالا مال کردیا۔ این ڈی اے یا بی جے پی نے یہ اعداد خواب میں بھی نہیں دیکھے تھے لیکن اتنا ضرور سوچا تھا کہ بہار کے عوام انھیں ضرور 140 تا 160 نشستوں کا حسین گلدستہ پیش کریں گے۔ اس چناؤ کی دو مرحلوں میں رائے دہی کے بعد قابل اعتماد اوپینین پولس نے مہا گٹھ بندھن کو کامیابی کی پیش قیاسی کی تھی جس پر اس اتحاد کی پارٹیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی لیکن جب ایگزٹ پولس آئے تو اس میں سوائے ایک ایجنسی کے تمام ایگزٹ پولس نے این ڈی اے کو 133 تا 167 نشستوں پر کامیابی بتلاتے ہوئے مہا گٹھ بندھن کے ہوش اُڑا دیئے اور این ڈی اے جو اوپینین پولس کے نتائج سن کر ICU میں شریک ہوگئی تھی وہ اچانک تندرست و توانا بن کر کھیلتے کودتے میدان میں آکر کُشتی کیلئے تیار ہوگئی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ این ڈی اے اور مہا گٹھ بندھن کے علاوہ ایک تیسرا مورچہ MIM وغیرہ اور ایک نئی پارٹی JSP انتخابی میدان میں کود پڑے جن کا اولین مقصد صرف اپنی سابقہ نشستوں کو حاصل کرنا یا کچھ حد تک اضافہ کرنا تھا۔ JSP دراصل عوام میں اپنا تعارف کرانا یا دو تین نشستیں حاصل کرکے اپنے وجود کا احساس دلانا چاہتی تھی۔ جب نتائج کا اعلان ہوا تو تمام پارٹیوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ این ڈی اے کا خوشی سے بُرا حال ہوگیا کیوں کہ وہ کامیابی سے پُرامید تھی لیکن 202 نشستوں کا اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اس نے صرف ایگزٹ پولس کے اعداد و شمار یعنی 133 تا 167 نشستوں کو ہی غنیمت سمجھا تھا لیکن 202 نشستوں سے بہار میں بَہار آگئی تھی۔ مہا گٹھ بندھن کے لیڈروں کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ تیسرے مورچہ میں خوشی اس بات پر تھی کہ اُس نے اپنی سابقہ نشستوں کو نہ صرف حاصل کرلیا بلکہ مہا گٹھ بندھن کو ناکام بناکر اپنی خوشی کو دوبالا کرلیا تھا۔ اس طرح اُس نے اپنے انتقام کو پورا کرلیا تھا۔ جہاں تک نئی پارٹی JSP کا تعلق ہے وہ چاروں خانے چت پڑی تھی۔ اُس کی جھولی خالی تھی۔ اس جھولی میں نہ ایک روٹی تھی نہ دو دانے، نہ حقیقت کا سایہ تھا، نہ مسکراتا افسانہ، بس مایوسی ہی مایوسی اس پارٹی کا مقدر بن چکی تھی۔ اگر JSP دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے مہا گٹھ بندھن کا حصہ بنتی تو آج ان پارٹیوں کے چہروں پر مایوسیوں کے بجائے خوشیاں رقصاں ہوتی۔ تیسرے مورچے کے نتائج پر سیاسی تبصرہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اس مورچے نے اپنی عزت بچالی، یہی اس کے لئے کافی ہے، اضافہ نشستوں کا حصول اس کی دسترس سے باہر تھا البتہ اُس نے ووٹ کٹوا پارٹی کا فرض بخوبی نبھایا اور این ڈی اے کے محاذ کو تقویت بخشی۔ این ڈی اے کی جیت پر مہا گٹھ بندھن کو کوئی حیرانی نہیں ہوئی کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب ووٹ چوری کا نتیجہ ہے اور مہاراشٹرا کے نتائج سامنے ہیں۔ البتہ پریشانی اس بات پر ہوئی کہ اس پارٹی نے ڈبل سنچری ماری جو صرف تیسرے مورچے اور JSP کی کارستانی ہے۔ تیسرے مورچے، نئی پارٹی JSP اور دیگر پارٹیوں نے مسلمانوں، دلتوں اور سیکولر ووٹروں کو گمراہ کیا جو جذبات کے طوفان میں آکر آج آنسوؤں کو پوچھ رہے ہیں۔ اب پورے نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ یہ بتایئے کہ سیمانچل کا کونسا بیٹا اُپ مکھیہ منتری (ڈپٹی چیف منسٹر) یا مکھیہ منتری (چیف منسٹر) بنایا گیا۔ یہ سب کھلونے دے کر دل بہلانے والے جملے ہیں۔ یہ کان خوش کرنے والی ہوائی باتیں ہیں، یہ دل کو تسلی دینے والے کھوکھلے نعرے ہیں۔ اس مورچے کی بساط ہی کیا ہے جو سیمانچل کے بیٹے کو وزیراعلیٰ بنادے۔ یہ نیک اور عظیم کام تو صرف کانگریس ہی کرسکتی ہے جس نے ماضی میں ہندوستان کی مقدس اور پاک سرزمین کو 14 وزرائے اعلیٰ دیئے ہیں جس کی مثال رہتی دنیا تک اور قیامت تک قائم رہے گی۔ چیخ و پکار کرنے سے حکومتیں نہیں قائم ہوتیں بلکہ سیاست میں سیاست سے کام کرنا پڑتا ہے اور اس فن کی ماہر صرف کانگریس پارٹی ہے۔ کچھ مفاد پرست کہتے ہیں کہ کانگریس پارٹی بی جے پی کا ڈر بتاکر اپنا فائدہ حاصل کرتی ہے۔ کیا کانگریس اور اس کے محاذ کو شکست دے کر مہاراشٹرا میں بی جے پی اقتدار پر نہیں آئی؟ کیا بی جے پی نے بہار میں اقتدار حاصل نہیں کیا؟ اپنے مفاد کے لئے عوام کو گمراہ کرنا، مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنا، ان کی معصومیت اور بھولے پن کا استحصال کرنا، جھوٹ بولنا ان مفاد پرستوں کا حسین مشغلہ ہے۔ کسی مفکر نے کیا خوب کہا ہے ’’وہ معاشرہ جلد ہی تباہی سے دوچار ہوجاتا ہے جہاں لوگ صرف اپنی ذات کا نفع سوچتے ہیں‘‘۔ ان ہی مفاد پرستوں کے جھوٹے پروپگنڈے نے بی جے پی کے ظالم حکمرانوں کو برسر اقتدار لایا ہے۔ ممکن ہے مہا گٹھ بندھن کے اور دیگر قائدین بہار کے نتائج کے خلاف قانونی لڑائی شروع کریں لیکن موجودہ حالات کا قافلہ اپنی منزل کی طرف یوں ہی چلتا رہے گا اور ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں …
سیکھ نہ پایا میں میٹھے جھوٹ کا ہنر
کڑوے سچ نے کئی لوگ چھین لئے مجھ سے
(مرزا غالبؔ)