سی اے اے کے خلاف شہر میں احتجاجی مظاہروں کو روکنے والے کون ہیں ؟

,

   

لیڈروں کے کٹر حامی بھی مخالفت میں بولنے لگےl ملی مفادات پر شخصی مفادات کو ترجیح آخر کب تک ؟
حیدرآباد ۔ 17 ۔ فروری : ( سیاست نیوز ) : کے سی آر کی حکومت نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف اسمبلی میں قرار داد کی منظوری کا فیصلہ کیا ہے ۔ جس کی ستائش کی جانی چاہئے لیکن تلنگانہ بالخصوص حیدرآباد پولیس سی اے اے کے خلاف احتجاج کی اجازت نہیں دے رہی ہے ۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے ۔ حیدرآباد میں کئی مقامات پر خواتین نے اپنے مقامات پر شاہین باغ کے طرز پر احتجاج منظم کرنے کی کوشش کی ۔ ہماری حیدرآباد کی بہادر پولیس نے ان کوششوں کو ایسے ہی ناکام بنادیا جس طرح انگریز مجاہدین آزادی کی کوششوں کو ناکام بنایا کرتے تھے ۔ انگریزوں کے لاکھ مظالم اور مکاریوں کے باوجود مجاہدین آزادی کسی نہ کسی طرح اپنا کام کر جاتے ۔ اب یہی صورتحال ہمارے شہر حیدرآباد میں نظر آتی ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ شہر کے مختلف مقامات پر تاجرین شام کے اوقات میں 15 منٹ اپنی دکانات میں روشنیاں گل کر کے احتجاج کررہے ہیں اس پر بھی پولیس برہم ہوجاتی ہے ۔ شہر میں خواتین کو احتجاج کی اجازت نہیں فلاش پروٹسٹ کرنے والے مرد و خواتین اور طلباء وطالبات کو گرفتار کرلیا جاتا ہے ۔ دھرنے کی اجازت نہیں ۔ ان حالات میں عوام اب یہ سوال اٹھانے لگے ہیں کہ آیا سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف احتجاجی مظاہرے کے سی آر حکومت کے لیے خطرہ ہیں ؟ کیا خاص طور پر حیدرآباد میں احتجاجی مظاہروں سے کسی پارٹی کے سیاسی مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے ؟ آخر وہ کون ہے جو احتجاجی مظاہروں کو روکنے پولیس پر دباؤ ڈال رہا ہے ؟ ہم نے مختلف احتجاجی مظاہرین سے بات کی جن میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں ۔ ان تمام کا یہی کہنا تھا کہ آج سی اے اے ، این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کا ساتھ دینے سے گریز کرنے والے سیاستدانوں کو آنے والے دنوں میں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ، ان کا بھی حال ایسا ہی ہوگا جیسے دہلی میں اروند کجریوال کے ہاتھوں بی جے پی کا ہوا ہے ۔ عوام اب اچھی طرح سمجھنے لگے ہیں کہ وہ کون ہیں جو سی اے اے کے مسئلہ پر عوام کا ساتھ نہ دیتے ہوئے بالواسطہ طور پر مودی اور امیت شاہ کی مدد کررہا ہے ۔ جہاں تک حیدرآباد پولیس کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کو روکنے کی کوششوں کا سوال ہے آخر کب تک پولیس فلاش پروٹسٹ کو روک سکے گی ۔ پولیس کے لیے سپریم کورٹ کی حالیہ رولنگ واضح پیام ہے کہ احتجاج کرنا عوام کا جمہوری حق ہے اور وہ ایسے مقام پر یقینا احتجاج کرسکتے ہیں جہاں ٹریفک میں خلل نہ ہو ۔ اگر سپریم کورٹ کی ان ریمارکس پر غور کیا جائے تو حیدرآباد میں مغل پورہ سے لے کر بہادر پورہ ، دارالشفاء ، سعید آباد مہدی پٹنم جیسے مقامات پر خواتین شاہین باغ کی طرز پر احتجاج کرسکتی ہیں اور اگر پولیس انہیں روکتی ہے تو یہ غیر قانونی ہی ہوگا ۔ شہرمیں یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ احتجاجی مظاہرہ کو کون روک رہا ہے ؟ اس کا مقصد کیا ہے ؟ وہ کیا چاہتا ہے ۔ عوام اچھی طرح جان چکے ہیں ۔ آنے والے دنوں میں خاص طور پر بلدی انتخابات میں اسے احتجاجی مظاہروں میں رکاوٹ بننے کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ ہم نے ایسے کٹر حامیوں کو بھی دیکھا ہے جو مخالفت میں ایک لفظ بھی سننا نہیں چاہتے تھے لیکن آج وہی حامی نجی محفلوں میں اپنے لیڈروں کو گالیاں دے رہے ہیں ۔ خود کارکن بھی یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ آخر کس لیے ان کے لیڈر سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف عوامی احتجاج میں رکاوٹ بن رہے ہیں ؟ بہر حال لیڈروں کو بھی نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے کہ آج وہ اپنے حقیر شخصی مفادات کی خاطر نا انصافی ظلم و جبر اور سیاہ قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔ کل یہ عوام ہی انہیں جمہوری انداز میں ناقابل فراموش سبق سکھائیں گے ۔۔