شاہین باغ اور اقبال کا شاہین

   

محمد ریاض احمد
دنیا بھر میں ہندوستان کی پہچان یادگار محبت تاج محل اور بابائے قوم مہاتما گاندھی اور ان کے پیام عدم تشدد سے پائی جاتی ہے لیکن اب اس میں شاہین باغ کا اضافہ ہوگیا ہے۔ دہلی کے جامعہ نگر سے قریب شاہین باغ ہندوستان میں جہاں ناانصافی، ظلم و ستم اور سیاہ قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا مرکز بنا ہوا ہے وہیں شاہین باغ سے بلند ہونے والی حق پسند آوازیں سارے ملک میں گونج رہی ہیں۔ احتجاجی مظاہروں کے مرکز کی حیثیت سے شاہین باغ ساری دنیا میں شہرت اختیار کرگیا ہے۔ شاہین باغ کی شہرت میں جہاں چار ماہ کے محمد جہاں نے اپنی شہادت کے ذریعہ چار چاند لگائے وہیں 90 سال سے زائد عمر کی خواتین نے اپنی شرکت کے ذریعہ اسے ایک نئی توانائی عطا کی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر حقوق انسانی کی عالمی تنظیمیں اور عالمی رہنما شاہین باغ کا حوالہ دینے لگے ہیں۔ یہی وہ شاہین باغ ہے جس نے ہمارے حکمرانوں پر جمہوریت، سیکولر ازم اور سوشل ازم کی ہیبت طاری کردی ہے۔ویسے بھی شاہین کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ جس نے بھی اس علاقہ کو شاہین کا نام دیا ہمیں یقین ہے کہ وہ شاعر مشرق علامہ اقبال کے تصور شاہین سے ضرور متاثر ہوا ہوگا۔ جہاں تک علامہ اقبال کی شاعری کا سوال ہے شاہین کا تصور ان کی شاعری میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کو یاددلادیں کہ 20 ویں صدی کی ابتداء میں اقبال کی پہلی نظم ’’ہمالہ‘‘ منظر عام پر آئی تھی۔ اس کے بعد علامہ اقبال نے کچھ برسوں تک کیمبریج اور ہائیڈل برگ جرمن میں قیام کیا۔ اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آخر علامہ اقبال کی شاعری نے شاہین کا تصور کیوں دیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ پرندہ شاہین بہت طاقتور ہوتا ہے، اس میں بڑی تیزی ہوتی ہے، وسعت نظری اور دور بینی پائی جاتی ہے اور بلند پرواز اس کی خاصیت ہوتی ہے۔ شاہین درویشی، قلندری، خوداری اور بے نیازی کی غیر معمولی صفات بھی پائی جاتی ہیں۔ ویسے بھی شاہین اپنی ان خصوصیات کے باعث ہی علامہ اقبال کا پسندیدہ اور محبوب پرندہ بنا ہے۔ اس کے بارے میں کسی نے بہت خوب لکھا ہے کہ شاہین جمال سے زیادہ جلال پسند ہے اور علامہ اقبال کو ایسے پرندوں سے کوئی دلچسپی نہیں جو کافی حسن کے حامل ہوتے ہیں یا جمالیاتی ہوتی ہیں اور جو حرکت کی بجائے سکون کو پسند کرتے ہیں اسی وجہ سے علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا ؎
کر بُلبُل و طاوس کی تقلید سے توبہ
بُلبُل فقط آواز ہے طاوس فقط رنگ
اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آخر علامہ اقبال کو شاہین کی علامت کیوں پسند ہے؟ آپ کو اقبال کے الفاظ میں اس کی وجہ بتاتے ہیں۔ انہوں نے ظفر احمد صدیقی کے نام ایک خط میں کچھ یوں لکھا ’’شاہین کی تشبیہہ محض شاعرانہ تشبیہہ نہیں ہے، اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ یہ ایسا خودار اور غیرت مند ہوتا ہے کہ اور کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔ اس قدر بے تعلق ہے کہ آشیانہ بھی نہیں بناتا۔ بلند پرواز ہوتا ہے اور خلوت نشین ہوتا ہے اور تیز نگاہ بھی۔ اس سلسلہ میں انہوں نے شاہین کے بارے میں ایک مکمل نظم لکھی ہے۔
کیا میں نے اس خاک داں سے کنارہ
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ
بیاباں کی حکومت خوش آتی ہے مجھ کو
ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ
نہ بادِ بہاری نہ گلچین نہ بلبل
نہ بیماری نغمہ عاشقانہ
خیابانیوں سے ہے پرہیز لازم
ادائیں ہیں ان کی بہت دلیرانہ
ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری
جواں مرد کی قربتِ غازیانہ
حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں
کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ
جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا
مرا نیلگوں آسمان بیکرانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہین بناتا نہیں آشیانہ
علامہ اقبال نے شاہین کی ان ہی خصوصیات کے باعث اسے اپنا پسندیدہ پرندہ قرار دیا۔ شاہین کی خاص بات اس کی بلند پروازی بھی ہے اور وہ آسمانوں کی وسعتوں کو چیرنے کا فن رکھتا ہے۔ علامہ اقبال نے اس غیرت مند و جانباز پرندہ کی علامت کے ذریعہ اپنے مرد مومن کو دنیا کے سامنے لایا۔ شاہین کی عادات و اطوار کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ شاہین کا مقصدِ حیات حرکت ہی حرکت ہے۔ عربی میں ایک محاورہ کچھ اس طرح ہے ’’حرکہ فی برکہ‘‘ (حرکت میں برکت ہے) حرکت دراصل جدوجہد کا نام ہے اور زندگی خود ایک جدوجہد ہے۔
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
شاہین کو جہاں ایک دلیر جفاکش اور بے نیاز پرندہ کہا جاتا ہے وہیں اس کی خوداری اور خود اعتمادی کا یہ حال ہوتا ہیکہ وہ کبھی بے عملی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ اسی وجہ سے اس کی مذکورہ خصوصیات کو اجاگر کرنے کی خاطر علامہ اقبال کہتے ہیں
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضاء میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور
گذرِ اوقات کرلیتا ہے یہ کوہ و بیاباں میں
کہ شاہین کے لئے ذلت ہے کار آشیاں بندی
بہرحال علامہ اقبال نے لوگوں کو اپنی نظم کے ذریعہ یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ خود کو ہمیشہ خوداری کے لباس سے زیب تن رکھنا اور اپنے رگ و پئے میں خود اعتمادی و حریت پسندی کو سمو لینا اور شاہین کی صفات جس قوم کے نوجوانوں میں پائی جاتی ہیں وہ ہمیشہ خود کو دوسروں کی نظروں میں بلند رکھتے ہیں لیکن خوداری، خود اعتمادی، غیرت مندی، بلند حوصلگی اور بلند پرواز تخیل سے محروم قوم خود اپنے تحفظ میں بھی ناکام رہتی ہے اور وہ تاریخ کا ایک غیر اہم اور قابل نظرانداز باب بن کر رہ جاتی ہے۔ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں :
افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
وہ بار بار اپنے مرد مجاہد کو یہ پیام دیتے ہیں
تو شاہین پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسمان اور بھی ہیں
بہرحال اقبال کے یہ شاہین اب ہندوستان کے مختلف علاقوں میں پرواز کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسے ہی 23 شاہینوں کو اترپردیش اور دو کو کرناٹک پولیس نے بڑی بے دردی سے گولیاں مار کر قتل کردیا۔ اس طرح انصاف اور حقوق کی لڑائی لڑتے ہوئے یہ شاہین شہید ہوئے۔ ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ شاہین باغ میں بھی شاہین جمع ہوچکے ہیں اور دو ماہ سے زائد عرصہ گذرچکا ہے، وہ اپنے موقف کے لئے ڈٹے ہوئے ہیں، حالانکہ وزیر داخلہ امیت شاہ نے اشاروں اشاروں میں سخت کارروائی کا انتباہ دیا۔ یہاں تک کہ بعض بی جے پی قائدین نے بڑے ہی کروفر کے ساتھ کہا تھا کہ دہلی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے اندرون گھنٹہ شاہین باغ سے احتجاجیوں کو نکال باہر کیا جائے گا لیکن دنیا نے دیکھا کہ وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ شاہین باغ کو سنسان کرنے کا انتباہ دینے والے بی جے پی قائدین کے دفاتر، ان کے مکانات اور یہاں تک کہ پارٹی ہیڈ کوارٹر سنسان ہوگئے ہیں۔ ملک کے محب وطن شہریوں کو غدار قرار دے کر گولی مارنے والے بھی ایسے ہی خاموش ہوگئے جیسے انہیں سیاسی گولی نے بے دم کردیا ہو۔ جہاں تک شاہین باغ کی شہرت کا سوال ہے اس میں چار ماہ کے شیرخوار محمد جہاں کا بھی حصہ ہے۔ بٹلہ ہاوز دہلی کے رہنے والے محمد عارف اور نازیہ کے اس فرزند دلبند نے اپنی قربانی کے ذریعہ شاید دہلی کے رائے دہندوں کو یہ پیام دیا کہ جینا ہے تو شاہین کی طرح جیو ورنہ آوارہ کتوں کے ہاتھ لگ جاوگے۔ بہرحال دہلی کے عوام نے شاہین باغ کے احتجاجی مظاہرین کی ایک طرح سے تائید کردی ہے اور یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ان میں بھی شاہین کی مردار کھانے کی عادت نہیں۔ وہ بھی شاہین کی طرح غیرت مند ہیں۔ ان میں بھی شاہین کی طرح بے نیازی، وسعت نظری اور بلند خیالی پائی جاتی ہے۔
[email protected]