رام پنیانی
ایودھیا میں کبھی بابری مسجد ہوا کرتی تھی۔ 1992 میں بابری مسجد کو کس طرح شہید کیا گیا یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ اب تو وہاں رام مندر تعمیر کیا جائے گا۔ ایسے میں ایودھیا میں بابری مسجد اور رام جنم بھومی کے سلسلہ میں دو نئے تنازعات پیدا ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ بعض بدھسٹ گروپوں نے دعویٰ کیا ہیکہ جس وقت مندر کی تعمیر کے لئے زمین کو برابر کیا جارہا تھا اس دوران وہاں سے بدھ وہار کی باقیات برآمد ہوئے یا پائے گئے۔ یاد رہے کہ بدھسٹوں کے بعض گروپس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہاں بدھاوہار ہوا کرتا تھا۔ اس سلسلہ میں عدالت عظمیٰ یعنی سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کے تحت ایک درخواست داخل کرتے ہوئے یہ استدعا کی گئی تھی کہ ایودھیا میں کھدائی کرکے جو باقیات برآمد ہوں گے انہیں محفوظ رکھا جائے کیونکہ ان میں سے بعض باقیات بدھسٹ دور کی ہیں۔ اس درخواست میں کھدائی کی صورت میں برآمد ہونے والے نوادرات کو محفوظ رکھنے کا بھی مطالبہ کیا۔ تاہم سپریم کورٹ نے اس پی آئی ایل (مفاد عامہ کی درخواست) کو مسترد کردیا۔ دوسرا تنازعہ نیپال کے وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے پیدا کیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ایودھیا جہاں رام پیدا ہوئے نیپال کے ضلع بیرگنج میں واقع ہے۔ رام کی جائے پیدائش ہندوستان نہیں بلکہ نیپال ہے۔ نیپالی وزیر اعظم کے اس نئے دعوے پر ہر کوئی حیران رہ گیا اور کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ آخر انہوں نے اب ایسا بیان کیوں دیا ہے۔ خود نیپال میں اس تعلق سے ان پر شدید تنقیدیں کی گئیں اور ان کے دفتر نے بھی یہ وضاحت جاری کی کہ ان کا مقصد کسی کے جذبات کو مجروح کرنا نہیں تھا۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ شری رام چندر جی سے متعلق واقعات یا کہانیوں کے بارے میں اس قسم کے تنازعات پیدا ہوئے ہیں۔ آپ کو یاددلادیں کہ جس وقت حکومت مہاراشٹرا نے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے تحریری مواد کو 1980 میں شائع کرنا شروع کیا اس وقت ان کی کتاب ’’راما اور کرشنا کی پہیلیوں‘‘ کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ امبیڈکر نے اپنی اس کتاب میں شری رام چندر جی پر ایک مشہور و معروف راجا بالی کو پیچھے سے قتل کرنے کے لئے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ رام نے بالی کو شمبوک کو قتل کرنے پر موت کی نیند سلایا تھا جو دراصل تپسیا کررہا تھا۔ امبیڈکر نے اپنی کتاب میں شری رام چندر جی پر اپنی حاملہ بیوی سیتا کو تنہا چھوڑ دینے پر بھی تنقید کی تھی۔ مثال کے طور پر سیتا کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، ان کی جو اگنی پریکشا لی گئی اور جس طرح انہیں جلاوطن کیا گیا اس کے لئے بھی رام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر سے پہلے جیوتی راو پھولے نے بھی بالی کو پیچھے سے حملہ کرکے قتل کرنے کے بارے میں تنقید کرتے ہوئے اس سارے واقعہ کا خلاصہ پیش کیا تھا۔ بالی ایک راجا تھا اور اس کی رعایا اس کی حکمرانی سے بہت خوش تھی۔ اسی طرح بعد میں راما سوامی پیریار نائیکر نے حقیقی رامایانا نامی ایک کتاب لکھی اور اُس کتاب میں شری رام چندر جی کے ان پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ پیریار نے رام چندر جی سے متعلق داستانوں میں ذات پات اور صنفی امتیاز کی شدید مخالفت کی۔ پیریار نے تامل تشخص بھی برقرار رکھی۔ ان کے مطابق رامائن تاریخ کی ایک ایسی بدترین داستاں ہے جس میں ذات پات، تہذیب اور اعلیٰ ذات والوں کو اہمیت دی گئی۔ یہ دراصل رام کی زیر قیادت شمالی ہند کے اعلیٰ ذات کی جانب سے جنوبی ہند کے لوگوں کو محکوم بنائے جانے کی داستاں ہے۔ پیریار نے راون کی قدیم دراوڈین راجہ کی حیثیت سے نشاندہی کی ہے۔ راون نے سیتا کو اپنی بہن سورپنکھا کے جسمانی اعضاء کاٹ دیئے جانے اور اس کی توہین کئے جانے پر اغوا کیا تھا۔ پیریار نے اس تمام واقعہ کی جو تشریح کی ہے اس میں انہوں نے راون کو بھکتی پر عمل کرنے والا ایک اچھا اور نیک انسان قرار دیا۔
اب بابری مسجد کی جانب چلتے ہیں: بابری مسجد کی شہادت کے بعد صفدر ہاشمی میموریل ٹرسٹ (SAHMAT) نے پونے میں 1993 کے دوران ایک نمائش کا اہتمام کیا لیکن اس نمائش میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ اُس توڑ پھوڑ کی وجہ دراصل نمائش میں ایک ایسا پیانل تھا جس میں رام اور سیتا کے بارے میں بدھسٹ جٹکا کا ورژن دکھایا گیا۔ اس داستاں میں بتایا گیا کہ رام اور سیتا بھائی بہن ہیں۔ اس ورژن کے مطابق دونوں ہندووں کی اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ ایسی ذات ہے جس میں اپنی ذات کو پاک و صاف رکھا جاتا ہے اور اس ذات کے لوگ اپنی ذات کے باہر شادی نہیں کرتے۔
چند سال قبل آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم بی جے پی کی طلبہ ونگ اے بی وی پی نے اے کے رامانوجن کے ایک مضمون کو واپس لئے جانے کی مہم چلائی تھی جس میں تین سو رامائنوں اور پانچ مثالیں دیگئیں جس میں ان کا استدلال تھا کہ رامائنا کے بے شمار تراجم یا ورژنس ہیں اور جہاں تک جغرافیائی و دیگر تفصیلات کا سوال ہے ان میں سے اکثر ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ سنسکرت اسکالر اور آثار قدیمہ کے کھدائی کے ماہر ہیچ ڈی سنکالیہ کے مطابق ایودھیا اور لنکا کے بارے میں آج جو تصور ہے وہ ماضی میں مختلف رہے ہوں گے۔ ان کا پرزور انداز میں یہ بھی کہنا ہے کہ لنکا مدھیہ پردیش میں کہیں ہوسکتا ہے۔ جیسے کہ والمیکی وندھیا کے جنوبی مقامات کے بارے میں واقف نہیں تھے ہوں گے۔
آج ہم سری لنکا کی حیثیت سے جس ملک کو جانتے ہیں ماضی میں اسے تمراپارنی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ رامائن کے بارے میں متضاد و مختلف بیانات صرف ہندوستان میں ہی پڑھنے میں نہیں آتے بلکہ تمام جنوب مشرقی ایشیا میں بھی دیکھے جاتے ہیں۔ پاولا ریچمین کی کتاب کئی رامائن ہمیں شری رام کی کہانی کے دیگر ترجموں یا ورژنس سے واقف کراتے ہیں۔ رامائن کے ورژن کو رامانند ساگر نے بھی پیش کیا۔ اسی طرح والمیکی اور گوسوامی تلسی داس نے بھی رام کے بارے میں مختلف خیالات کا اظہار کیا جہاں تک رام کی کہانی کے ترجموں کا سوال ہے بالینیز بنگالی، کشمیری، تھائی، سنہالا، سنتھالی تامل، تبتن اور پالی و دیگر زبانوں میں اس کے تراجم کئے گئے۔ اِسی طرح مغربی زبانوں میں بھی اس کے ورژنس اور تراجم ملیں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ تمام تراجم ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر تھائی لینڈ میں رام کریتی یا رامکن کے نام سے رامائن پائی جاتی ہے جس میں ہنومان کا کردار دیگر رامائن میں بیان کئے گئے کردار سے مختلف ہے۔ اس رامائن میں ہنومان کنوارے نہیں ہیں۔ دوسری جانب رامائن کے جین اور بدھسٹ ورژن میں رام بالترتیب مہاویر اور گوتم بدھ کے ماننے والے ہیں۔ ان دونوں ورژنس میں راون کو ایک عظیم دانشور اور نیک انسان کے طور پر پیش کیا گیا جو معلومات کا سمندر تھا۔ بیرونی ممالک میں رامائن کے بعض ورژنس جو کافی مقبول ہیں ان میں سیتا کو راون کی بیٹی بتایاگیا ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں ملیالم شاعر ویالار راما ورما کی نظم راون پتری (راون کی بیٹی) کافی مقبول ہے۔ کئی ورژنس میں یہ دکھایا گیا کہ دشرتھ وارانسی کے راجا تھے ایودھیا کے نہیں۔ رامائن کی مقبول کہانیوں پر مشتمل خواتین کی رامائن گیت کافی مقبول ہوئے ہیں۔ تلگو برہمن ویمن کے نغموں کو رنگانائک اما نے ایک مقام پر لایا ہے۔ ان گانوں میں سیتا کو بالآخر رام پر فاتح ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور اس میں رام سے انتقام لینے میں سورپنکھا کی کامیابی بھی دکھائی گئی ہے۔ جنوب اور جنوب مشرق ایشیا میں رام کے بارے میں جو کہانیاں ہیں ان پر غور کرتے ہوئے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ رام مندر تحریک والمیکی، تلسی داس اور رامانند ساگر کے بیان کردہ داستان کے اطراف گھومتی ہے۔ ایک بات ضرور ہے کہ والمیکی اور تلسی داس کی رامائن کے ساتھ ساتھ رامانند ساگر کے ٹی وی سیریل کا جائزہ لیں تو تینوں میں متضاد ورژنس ملیں گے اور یہ ضرور پتہ چلے گا کہ ہمارے ملک میں ذات پات اور صنفی توازن مضبوط جڑ پکڑ چکا ہے۔ آج کے ماحول میں فرقہ پرست اپنے مطلب کا ورژن حاصل کرتے ہوئے عوامی جذبات کا استحصال کررہے ہیں۔