امید پورٹل پر اندراج کرنے کا وقت قریب الختم ، بورڈ کا اجلاس طویل عرصہ سے التوا، وقف جائیدادوں کو نقصان کا امکان
حیدرآباد۔22۔نومبر(سیاست نیوز) صدرنشین تلنگانہ ریاستی وقف بورڈ و سی ای او وقف بورڈ کے مابین جاری اختلافات نے اب مزید شدت اختیار کرلی ہے اور اب یہ مسئلہ پر زبان خاص و عام سے سنائی دیا جانے لگا ہے۔ صدرنشین وقف بورڈ جناب سید عظمت اللہ حسینی نے گذشتہ یوم دیئے گئے ایک انٹرویو کے دوران چیف اکزیکیٹیو آفیسر تلنگانہ وقف بورڈ کے ساتھ ان کے تعلقات بہتر نہ ہونے کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ محمد اسداللہ انچارج سی ای او کے خلاف تلنگانہ ہائی کورٹ میں جاری مقدمات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود انہیں نشانہ بناتے ہوئے یہ باور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ عدالت میں جاری مقدمات کے پس پردہ وہ ہیں جبکہ ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ انہوں نے بتایاکہ وقف بورڈ کے ملازمین اور عملہ کی تنخواہوں کا معاملہ جو کھٹائی کا شکار ہے اس کے لئے بھی خود سی ای او وقف بورڈ ذمہ دار ہیں کیونکہ وہ اپنی اس معیاد کی تنخواہ طلب کر رہے ہیں جب وہ بورڈ میں کارکرد نہیں تھے بلکہ محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے ان کی خدمات ان کے محکمہ مال کو واپس کی جاچکی تھی ۔ انہوں نے بتایاکہ اس مدت کی تنخواہ بورڈ کی جانب سے ادا نہیں کی جاسکتی اسی لئے وہ سی ای او کی اس مدت کی تنخواہ کی اجرائی کے حق میںنہیں ہیں اور واضح کہہ رہے ہیں کہ محمد اسداللہ اگر اس مدت کی تنخواہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وہ محکمہ اقلیتی بہبود یا ریاستی حکومت کے ذریعہ احکامات حاصل کرتے ہوئے تنخواہ کا ادعا پیش کریں لیکن اس کے برعکس سی ای او تلنگانہ وقف بورڈ کے عملہ کی تنخواہوں کی اجرائی میں رخنہ پیدا کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ جب تک ان کی تنخواہ جاری نہیں کی جاتی اس وقت تک وہ وقف میں خدمات انجام دینے والے عملہ کی تنخواہوں کی اجرائی عمل میں نہیں لائیں گے۔ صدرنشین بورڈ اور چیف اکزیکیٹیو آفیسر وقف بورڈ کے مابین جاری اختلافات کے نتیجہ میں بورڈ کی کارکردگی متاثر ہونے کا خدشہ ہے جبکہ وقف بورڈ ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے تمام وقف بورڈس انتہائی نازک حالات سے گذر رہے ہیں کیونکہ ملک بھر میں ’’امید پورٹل‘‘ پر اندراجات کے عمل کی آخری تاریخ سے تیزی سے قریب آنے لگی ہے اور تلنگانہ وقف بورڈ کے اجلاس کے بغیر UMEED پورٹل پر اندراجات کا عمل جاری ہے ۔ بتایاجاتا ہے کہ تلنگانہ کی بیشتر جائیدادوں بالخصوص انتہائی قیمتی اوقافی اراضیات جن پر قبضہ جات ہیں اور ان پر قانونی تنازعات جاری ہیں ان جائیدادوں کو پورٹل پر درج کرنے کے سلسلہ میں کوتاہی کا مظاہرہ کیا جا رہاہے اور کئی ایسی جائیدادوں کو جن پر سیاسی قائدین اور عہدیدار قابض ہیں ان کے دستاویزات کو غائب کرتے ہوئے پورٹل پر درج کرنے سے گریز کیا جا رہاہے تاکہ مستقبل میں کوئی ان جائیدادوں کے وقف ہونے کے سلسلہ میں دعویٰ بھی پیش نہ کرسکے اسی لئے تلنگانہ وقف بورڈ کے اجلاس کے بغیر عہدیداروں کی نگرانی میں اندراجات کا عمل جاری رکھا گیا ہے جو کہ درحقیقت مقبوضہ موقوفہ جائیدادوں کو پورٹل پر درج کرنے سے گریز کی پالیسی کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے۔ماہرین اوقافی امور کی جانب سے مسلسل یہ سوال کیا جانے لگا ہے کہ اگر اُمید پورٹل پر اندراجات کا عمل مکمل ہوجاتا ہے اور اگر کسی جائیدادکو پورٹل پر درج نہیں کیاجاتا ہے تو ایسی صورت میں تلنگانہ میں اس کا ذمہ دار کسے تصور کیا جائے گا!کیونکہ وقف بورڈ کا اجلاس ہوئے ایک سال سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے اور اُمید پورٹل پر اندراجات کے سلسلہ میں منصوبہ بندی کے لئے بھی بورڈ کا کوئی اجلاس منعقد نہیں کیاگیا بلکہ عہدیداروں کی من مانی فیصلوں کے ساتھ اس عمل کو شروع کیاگیا ہے اور اب جبکہ چیف اکزیکٹیو آفیسر کی تنخواہ کی اجرائی کا مسئلہ پیدا ہوا ہے اور خود سی ای او نے بورڈ کے عملہ کی تنخواہوں کی اجرائی روک دی ہے تو بورڈ کے عملہ نے اُمید پورٹل پر اندراجات کے دوران ہونے والی دھاندلیوں کے سلسلہ میں انکشافات کرنے شروع کردئیے ہیں اور کہا جار ہاہے کہ اعلیٰ عہدیداروں کی ہدایت کے مطابق موقوفہ اداروں کی تفصیلات پورٹل پر درج کی جا رہی ہیں۔3