طلاق ثلاثہ بل کو ٹی آر ایس کی حمایت !

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ ، مودی حکومت کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے ہیں اور خود کے سی آر بھی ذوق و شوق سے استعمال ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ راجیہ سبھا میں طلاق ثلاثہ بل کی پیشکشی کے بعد رائے دہی کے دوران ایوان سے غیر حاضر رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اب انہوں نے مرکز سے مزاحمتی سیاست ترک کردی ہے ۔ وفاقی محاذ بنانے کا بخار اتر گیا ہے ۔ بی جے پی سے مل کر رہنے میں ہی اپنی حکومت بچائی جاسکتی ہے کیوں کہ بی جے پی کے قائدین اس وقت ہر اس ریاست کو نشانہ بنا رہے ہیں جہاں غیر بی جے پی حکومتیں ہیں ۔ اس وقت عوامی سطح پر کیا تاثر پایا جاتا ہے یہ الگ بحث ہے ۔ مگر ایوان کے اندر ٹی آر ایس نے اپنے سیکولر ہونے کے دعویٰ کو غلط ثابت کردیا ہے ۔ طلاق ثلاثہ بل کی منظوری میں ٹی آر ایس بھی برابر کی شریک ہے ۔ ٹی آر ایس اور اس کے سربراہ کو مسلمانوں کے خلاف جانے کی ہمت اس لیے ہوتی ہے کیوں کہ مسلمانوں نے لاکھ وعدہ خلافیوں کے باوجود ٹی آر ایس کو ہی ووٹ دیا ۔ دوسری میعاد تک پہونچایا، لہذا مسلمانوں کو اپنے اس فیصلہ کا خمیازہ تو بھگتنا پڑے گا ۔ ٹی آر ایس نے راجیہ سبھا میں حق معلومات قانون کی بھی تائید کی ہے۔ اس دوستی کے مظاہرے کے باوجود بی جے پی نے تلنگانہ میں کے سی آر کے ساتھ کسی قسم کے اتحاد سے انکار کیا ہے ۔ ایک طرف دوستی دوسری طرف انکار کا مظاہرہ تلنگانہ کے رائے دہندوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ہے ۔ بی جے پی دھیرے دھیرے ٹی آر ایس کا متبادل بنتے جارہی ہے ۔ دونوں پارٹیوں کی سیاست کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے تلنگانہ کے بارے میں آئینی حقاق کا ادراک حاصل کیا جائے ۔ تلنگانہ کی نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے اپنی سیاسی بالغ نظری کا ثبوت نہیں دیا ۔ بی جے پی اپنے مشن 2023 کے ذریعہ تلگو دیشم نے جو خلا پیدا کی ہے اس کی جگہ لیتے ہوئے اپنا موقف مضبوط کرے گی ۔ کانگریس کی کمزور قیادت نے بی جے پی کی ترقی کی راہیں کشادہ کردی ہیں ۔ تلنگانہ کی گنگا جمنی تہذیب کا حوالہ دے کر اب وہ زیادہ پر امید ہورہی ہے تو وہ اپنا خسارہ کررہی ہے ۔ مرکز کی بی جے پی حکومت سے علاقائی پارٹیاں خوف زدہ دکھائی دے رہی ہیں ۔ اس لیے پارلیمنٹ میں بی جے پی کے بل حق معلومات قانون اور طلاق ثلاثہ بل کی یا تو تائید کرچکی ہیں یا درپردہ طور پر مدد کررہی ہیں ۔ اوڈیشہ ، آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے چیف منسٹروں نے مرکز کا بھر پور ساتھ دیا ہے ۔ حق معلومات قانون ترمیمی بل کو منظور کرتے ہوئے حکومت نے اب شہریوں کے حقوق کو چھین لیا ہے اپنی بدعنوانیوں پر سوال اٹھانے کا شہریوں سے حق چھین کر مرکزی حکومت نے سرکاری محکموں میں رشوت ستانی کو ہوا دینے کا بندوبست کرلیا ہے ۔ یہ بل بھی راجیہ سبھا میں منظور نہیں ہوسکتا تھا ، اگر بی جے ڈی ، وائی ایس آر کانگریس اور ٹی آر ایس نے تائید نہ کی ہوتی تو شہریوں کے حقوق پر بی جے پی حکومت ڈاکہ ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوتی مگر افسوس حقوق کی بات کرنے والی پارٹیوں نے شہریوں کو ان کے حق سے محروم کردیا ہے ۔

عوام کی آزادی ، خود مختاری اور مقتدر اعلیٰ اختیارات کو سلب کرنے میں ان پارٹیوں نے بی جے پی کی کھل کر مدد کی ہے ۔ اس کے جواب میں کانگریس اس قدر خاموش ہے کہ اس کے منہ سے آواز ہی نہیں نکل پارہی ہے ۔ ملک کی معیشت اور ریاستوں کی کمزور کارکردگی نے غیر متوقع طور پر حالات کے خراب ہونے کا اشارہ دیدیا ہے ۔ عوام کے تاثرات اور ردعمل سے معلوم ہوتا ہے کہ بد انتظامی نے مہنگائی بڑھا دی ہے ۔ وزیراعظم ہو یا چیف منسٹرس اپنی گمراہ کن پالیسیوں کو عوام پر مسلط کرتے جارہے ہیں ۔ عوام ہیں کہ ان موضوعات کی جانب حکومت کی توجہ دلانے کی زحمت ہی نہیں کرتے ۔ عوام کو روزانہ یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ ان کے لیے مشکل وقت آنے والا ہے ۔ انہیں حکومت کی سطح پر معاشی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہئے لیکن عوام کو حساب کتاب یا ریاضی اتنی مشکل لگتی ہے کہ وہ اس جھمیلے میں پڑنا نہیں چاہتے ۔ ان کی اس کمزوری کا حکومتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں ۔ وقت کو ماپنا ضروری ہے لیکن عوام ہیں کہ ناپ تول کی عادت سے دور ہورہے ہیں ۔ معاشی ترقی کو جانچنا ہو یا پھر ماضی کے دریچوں سے مستقبل میں جھانکنا ہو ۔ عوام کو انفرادی یا اجتماعی طور پر ہی کام کرنے ہوتے ہیں ۔ حکمراں نیک اور صالح ہوں تو مواقع اور اب میر کار کی کمی نہیں ہوتی یہاں تو عوام بھی چپ ہیں اور حکومت بھی بے پرواہ ہے ۔ اس لیے سوچ و فکر کے ذخائر سے بھی محروم ہورہے ہیں ۔ دلچسپ مگر تشویشناک بات تو یہ ہے کہ عوام نے حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہی چھوڑ دیا ہے ۔ انہیں روزمرہ زندگیوں میں اس قدر مصروف رکھا گیا ہے کہ اپنے اطراف کی ہونے والی تبدیلیوں کی خبر ہی نہیں ہوتی ۔ یہ سیاسی پارٹیاں ہی ہیں جو ایک دوسرے کے بارے میں معلومات اکھٹا کرنے کے لیے سیاسی پارٹیوں کے کمپیوٹرس سسٹم کو ہیک کرتی ہیں ۔ بی جے پی کی ریاستی لیڈر کرونا گوپال نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان کے سوشیل میڈیا اکاونٹس کو ہیک کرنے کی کئی مرتبہ کوشش کی گئی ہے تاکہ وہ بی جے پی کے تعلق سے بعض راز معلوم کرسکیں ۔ یہ ہیکینگ سیاسی مقصد براری پر مبنی ہے ۔ بی جے پی نے سوشیل میڈیا کے ذریعہ ہی اپنی کامیابی کو یقینی بنایا ہے ۔ اس پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے وہ تلنگانہ میں بھی اپنے قدم مضبوط کررہی ہے ۔ بی جے پی کی غیر روایتی پسند نے ہی طاقتور شخصیتوں کو منتخب کر کے آج انہیں ریاستوں کا سربراہ بنایا ہے ۔ بی جے پی نے یو پی میں آدتیہ ناتھ یوگی کو مہاراشٹرا میں دیویندر فرنویس اور نرملا سیتارامن سے لے کر پرکاش جاوڈیکر تک کا انتخاب کر کے اپنی سیاسی بنیادوں کو اس قدر مضبوط کرلیا ہے کہ وہ جنوبی ہند کی کرناٹک کے بعد تلنگانہ میں بھی عوام کی تائید کے مزے حاصل کرے گی ۔