کجریوال گرفتار … انڈیا اتحاد پر وار
نریندر مودی … ڈراؤ پھر اٹھالو کی پالیسی
رشیدالدین
’’ پہلے ڈراؤ اور پھر اٹھالو‘‘ نریندر مودی حکومت اپوزیشن کے ساتھ اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ لوک سبھا چناؤ 2024 میں کامیابی کیلئے مودی کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ اپوزیشن کا ملک سے صفایا کرتے ہوئے ایک جماعتی نظام کا قیام بنیادی مقصد ہے تاکہ سوال کرنے والا کوئی باقی نہ رہے۔ اپوزیشن مکت بھارت کے خواب کی تکمیل کے ذریعہ نریندر مودی شمالی کوریا ، چین اور روس کے حکمرانوں کی طرح ناقابل چیلنج بننے کی تیاری میں ہیں۔ لوک سبھا چناؤ سے عین قبل چیف منسٹر دہلی اور عام آدمی پارٹی سربراہ اروند کجریوال کی گرفتاری اور کانگریس پارٹی کے تمام بینک کھاتوں کو منجمد کرنا سیاسی انتقام کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں اروند کجریوال پہلے چیف منسٹر ہیں جنہیں عہدہ پر گرفتار کیا گیا ہے ۔ جیسے ہم نے ابتداء میں کہا کہ چناؤ جیتنے کیلئے مودی تمام حدود کو پھلانگ سکتے ہیں۔ قانون ، عدلیہ ، دستور اور جمہوریت کو پامال کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کریں گے۔ مودی اینڈ کمپنی نے ملک کے تمام اداروں کو یرغمال بنالیا ہے اور کسی کی پرواہ نہیں ہے ۔ لفظ ڈکٹیٹر نریندر مودی کیلئے معمولی لفظ ہے۔ تانا شاہی اور بادشاہی نظام کا ملک میں احیاء دکھائی دے رہا ہے ۔ مودی حکومت نے گزشتہ 10 برسوں میں عوام کی بھلائی پر تو کوئی توجہ نہیں دی لیکن ساری طاقت ، صلاحیت اور توانائی مخالفین کو کمزور کرنے یا صفایا کرنے پر صرف کی ہے ۔ پہلے لالچ دے کر تائید کے لئے مجبور کیا جاتا ہے اور انکار کی صورت میں مقدمات سے ڈرایا جاتا ہے ، پھر بھی جھکنے سے انکار کریں تو گرفتاری اور جیل مقدر بن جاتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ’’پہلے ڈراؤ پھر اٹھالو‘‘ نعرہ کے ذریعہ مخالفین کی آواز دبانے کی کوشش کی گئی ۔ بی جے پی کے پاس مودی ڈٹرجینٹ پاؤڈر ہر کسی کے پاپ اور گناہوں کو نرما کی طرح ’’دودھ سی سفیدی‘‘ میں تبدیل کردیتا ہے ۔ اپوزیشن لیڈرس کے خلاف لاکھ مقدمات کیوں نہ ہو ایک بار بی جے پی واشنگ مشین میں مودی ڈٹرجینٹ سے دھلائی ہوجائے تو پھر انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ ، سی بی آئی اور انکم ٹیکس سے نجات مل جاتی ہے۔ بہار میں نتیش کمار کے بی جے پی حلقہ بگوش ہونے کے پس پردہ مقدمات کا خوف ہی تھا ، اروند کجریوال ایک ایماندار سیاستداں اور عوام کے حقیقی خدمات گزار کے طور پر مقبول تھے، انہیں مستقبل کے وزیراعظم کے طور پر پروجیکٹ کیا جارہا تھا ۔ مرکزی حکومت نے کجریوال حکومت کو ہر قدم پر رکاوٹوں کے ذریعہ کمزور کرنے کی سازش کی۔ کجریوال کو این ڈی اے میں شمولیت کیلئے مجبور کیا گیا۔ حکومت کے اختیارات سلب کئے گئے ۔ ہراسانیوں اور رکاوٹوں کا جب کجریوال نے مقابلہ کرنے کی ٹھان لی تو اکسائز پالیسی کی تیاری میں منی لانڈرنگ الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ۔ مقدمہ میں عام آدمی پارٹی اور بی آر ایس کو ٹارگٹ کیا گیا ۔ ملک میں تعلیم کے شعبہ میں مثالی کارنامے انجام دینے والے ڈپٹی چیف منسٹر منیش سیسوڈیا ایک سال سے جیل میں بند ہیں اور کسی بھی عدالت سے ضمانت نہیں ملی۔ عام آدمی پارٹی کے رکن راجیہ سبھا سنجے سنگھ گزشتہ سال اکتوبر سے جیل میں ہیں۔ کجریوال نے ساتھیوں کی گرفتاری کے باوجود ہار نہیں مانی ، لہذا مودی حکومت نے ان کا تعاقب کرتے ہوئے انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ سے 9 مرتبہ سمن جاری کرایا۔ کجریوال کسی طرح سمن سے بچتے رہے اور ہائی کورٹ کی جانب سے گرفتاری روکنے سے انکار کے فوری بعد انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ نے ان کی قیامگاہ پر ہلہ بول دیا اور گرفتاری عمل میں آئی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کجریوال اور ان کے ساتھیوں کے مکانات اور دفاتر کی بارہا تلاشی لی گئی لیکن کچھ بھی نہیں ملا۔ پھر بھی منی لانڈرنگ کے الزامات برقرار رہے۔ جہاں تک عدالت سے ضمانت کا معاملہ ہے ، کجریوال کے ساتھیوں کی ضمانت روکنے کیلئے مودی حکومت نے عدلیہ پر اپنا اثر و رسوخ ضرور استعمال کیا ہوگا ورنہ ماہرین قانون کے مطابق منی لانڈرنگ کے الزامات ویسے نہیں کہ ایک سال تک ضمانت نہ دی جائے۔ لوک سبھا الیکشن سے عین قبل کجریوال کی گرفتاری کا مقصد دراصل کانگریس زیر قیادت انڈیا الائنس کو کمزور کرنا ہے ۔ قومی تحقیقاتی ایجنسیوں کو بی جے پی کی محاذی تنظیموں کی طرح استعمال کیا جارہا ہے۔ سی بی آئی ، ای ڈی اور انکم ٹیکس کو مخالفین کے تعاقب میں چھوڑ دیا گیا ہے ۔ الیکشن شیڈول کی اجرائی سے ایک دن قبل کویتا کو حیدرآباد سے گرفتار کیا گیا ۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کا بے جا استعمال جمہوریت کیلئے سنگین خطرہ ہے اور ملک میں دستور و قانون کی حکمرانی کے بجائے آمریت کا راج ہوجائے گا۔
لوک سبھا الیکشن میں کامیابی کے لئے مودی حکومت نے انکم ٹیکس کے ذریعہ کانگریس کو نشانہ بنایا ۔ کانگریس پارٹی کے تمام بینک اکاؤنٹس اچانک منجمد کردیئے گئے اور پارٹی کسی بھی معمولی خرچ کیلئے بینک سے رقم حاصل نہیں کرسکتی۔ کئی سال قبل حسابات کی پیشکشی میں ناکامی کا بہانہ بناکر جرمانہ کرنے کے بجائے تمام بینک اکاؤنٹس کو منجمد کردیا گیا ۔ الیکشن سے عین قبل ملک کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس کے بینک اکاؤنٹس کو منجمد کرنے کا واحد مقصد انتخابی مہم کو نقصان پہنچانا ہے ۔ کانگریس پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ بینک اکاؤنٹس کے منجمد ہونے سے انتخابی مہم چلانے سے قاصر رہے گی۔ راہول گاندھی نے یہاں تک کہہ دیا کہ جب اپوزیشن کو انتخابی مہم کی اجازت نہیں ہے تو پھر ملک میں الیکشن کے بغیر ہی مودی تاحیات وزیراعظم ہونے کا اعلان کردیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ اور دیگر ادارے اس مسئلہ پر خاموش ہیں ، حالانکہ بینک اکاؤنٹس کی رقم کے بغیر کوئی بھی پارٹی مہم نہیں چلا سکتی۔ انتخابی میٹریل کی تیاری ، اسٹار کیمپینرس کے دوروں کا انتظام اور پارٹی امیدواروں کو فنڈس کی فراہمی ان ہی اکاونٹس سے کی جاتی ہے۔ مودی حکومت نے کانگریس کے اکاؤنٹس کو منجمد کردیئے اور الیکشن بانڈس کے نام پر ہزاروں کروڑ کی درپردہ رشوت حاصل کی ہے ۔ کانگریس اور اس کی قیادت سے بی جے پی خوفزدہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہر اپوزیشن پارٹی کو کسی نہ کسی انداز میں ہراساں کیا جارہا ہے ۔ ہراسانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کانگریس کی حلیف جماعتیں بھی مودی کے خلاف آواز بلند کرنے میں مصلحتوں کا شکار ہیں۔ ملک میں مخالف اپوزیشن اقدامات پر عوام کی بے حسی سیاسی مبصرین میں بحث کا موضوع بن چکی ہے ۔ صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ جس پر مصیبت آئے وہی آواز بلند کریں۔ کوئی دوسرا مدد کیلئے تیار نہیں ہوگا۔ الیکشن میں تمام پارٹیوں کو مہم کا یکساں موقع ملنا چاہئے الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ مرکز کو کانگریس کے بینک اکاؤنٹس کے بارے میں واضح ہدایات جاری کرے۔ الیکٹورل بانڈس کے مسئلہ پر سپریم کورٹ نے مودی حکومت کے درپردہ رشوت کے منصوبہ کو بے نقاب کردیا ۔ سپریم کورٹ نے الیکٹورل بانڈس کو غیر قانونی قرار دیا جس کے بعد بی جے پی کے ہوش اڑ گئے۔ ملک کے تمام بڑے صنعتی گھرانوں سے الیکٹورل بانڈس کے ذریعہ مدد حاصل کی جارہی تھی ۔ اب جبکہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر بانڈس کی تمام تفصیلات جاری کردی ہیں، عوام کو چاہئے کہ ہوش کے ناخن لیں اور بی جے پی کے منصوبے سے چوکس رہیں۔ الیکشن میں کامیابی ہی سب کچھ نہیں ہوتی ۔ نریندر مودی کو جان لینا چاہئے کہ حکومت ظلم سے باقی نہیں رہتی۔ کوئی بھی مذہب ظلم اور ناانصافی کی تعلیم نہیں دیتا ۔ وقتی طور پر اپوزیشن کو کمزور کیا جاسکتا ہے لیکن قانون قدرت سے کسی کو فرار نہیں ہوسکتا ۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ بڑے سے بڑے ڈکٹیٹر حکمرانوں کو زوال کا سامنا کرنا پڑا۔ وقت اور حالات کے بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ مودی کا بھجن کرنے والا گودی میڈیا بھلے ہی ہر گھر میں مودی کو ہیرو کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرے لیکن عوام باشعور ہیں اور وہ ملک اور قوم کی بھلائی میں ضرور کوئی فیصلہ کریں گے ۔ ظلم کو ایک نہ ایک دن مٹنا ہی پڑتا ہے اور ہر عروج کو زوال ضروری ہے۔ اپوزیشن مکت بھارت کا خواب دیکھنے والے نریندر مودی بھول رہے ہیں کہ وہ خود بھی اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسروں کو مٹانے کی دھن میں خود اپنے زوال کو بھول جائیں۔ زندگی اور اقتدار دونوں مستقل نہیں بلکہ عارضی ہوتے ہیں۔ مجروح سلطان پوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا