عدالت کے حکم پر سنبھل کی جامع مسجد کا سروے

,

   

متھرا اور کاشی کے بعد یوپی میں مسجد کو تنازعہ بنانے کا تیسرا معاملہ

سنبھل (یو پی): سنبھل کی جامع مسجد کا منگل کو مقامی عدالت کے حکم پر سروے کیا گیا۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ مسجد ایک مندر کو گرا کر بنائی گئی ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ کمیشن ایڈوکیٹ کے ذریعے ویڈیو گرافی اور فوٹو گرافی کا سروے کیا جانا چاہیے اور عدالت میں رپورٹ درج کرائی جانی چاہیے۔ 1529 میں بابر نے مندر کو گرا کر مسجد میں تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے مطابق یہ ایک محفوظ علاقہ ہے۔ کسی بھی قسم کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی۔ درخواست گذار وکیل وشنو شنکر جین نے کہاکہ وہاں بہت سارے نشانات جو ہندو مندر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان تمام چیزوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے عدالت نے یہ حکم جاری کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں اے ایس آئی، اتر پردیش حکومت، جامع مسجد کمیٹی اور سمبھل ضلع مجسٹریٹ کو فریق بنایا گیا ہے۔ ہدایت کے مطابق ‘ایڈووکیٹ کمشنر نے سروے کیا۔ اس دوران دونوں فریق موجود تھے ۔ ایڈووکیٹ کمشنر نے سروے کیا ہے اور وہ عدالت میں اپنی رپورٹ پیش کریں گے۔سنبھل سے سماج وادی پارٹی کے ایم پی ضیاء الرحمن برق نے کہاکہ جامع مسجد تاریخی اور بہت پرانی ہے۔ 1991 میں سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ 1947 کے بعد سے جو بھی مذہبی مقامات ہیں وہ اسی حالت میں ہوں گے۔ اس کے بعد بھی کچھ لوگ ملک اور ریاست کا ماحول خراب کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ان کے خلاف ہیں۔ وہ ایک انچ کی جگہ پر بھی اعتراض نہیں کر سکتے۔ یہ ایک مسجد تھی، مسجد ہے اور مسجد رہے گی۔یو پی میں متھرا اور کاشی کے بعد سنبھل کی مسجد کو تنازعہ کا یہ تیسرا معاملہ ہے