جامع مسجد عالیہ میں محفل اقبال شناسی، ڈاکٹر محمد ناظم علی کا خطاب
حیدرآباد 26 فروری (راست) اقبال کی نظم شمع اور شاعر بانگ درا میں شامل ہے۔ شاعر کے عنوان سے فارسی میں جملہ پانچ اشعار اور شمع کے عنوان سے اُردو میں 82 اشعار ملتے ہیں۔ اقبال اردو کے عظیم شاعر و مفکر ہیں۔ کئی بے مثال اور لازوال نظمیں لکھی ہیں۔ شمع اور شاعر ایک ایسی نظم ہے جس کی رعنائی ودلکشی بقائے دوام کی ضمانت ہے۔ اقبال پیامی شاعر ہیں، انھوں نے اپنے افکار و خیالات کو خالص شاعری کا پیرایہ عطا کیا ہے۔ جذبے کی آنچ میں پگھل کر شاعر کی فکر ایک جمالیاتی تجربہ بن گئی ہے۔ یہاں فکر و فن کے درمیان خط کھینچنا ممکن نہیں۔ یہ نظم مواد اور ہیئت کی مکمل ہم آہنگی کا نمونہ ہے۔قاری پہلے شعر کا لطف لیتا ہے، شاعر کے پیغام کی طرف اس کا دھیان بعد کو جاتا ہے۔ عظیم شاعری کی یہی شناخت ہے۔ اقبال کو احساس تھا کہ میں شاعر کے یہ پیام پہنچانا چاہتا ہوں اور اپنی سوئی ہوئی قوم کو جگانا ہی ان کا اصل مدعا ہے۔ بلاشبہ وہ اپنے پیغام کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ دلکش پیرایہ شاعری میں اختیار نہ کیا جائے، سننے والوں پر پیغام کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ وہ اپنی بات کو زیادہ سے زیادہ پُراثر بنانے کی دھن میں ایسا کوئی طریقہ ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے جس سے کلام میں دلکشی و رعنائی پیدا ہو۔ انھوں نے شعر میں حسن پیدا کرنے کے لئے متعدد فنی تدابیر یا شعری وسائل مثلاً لفظوں کا انتخاب یا بندش الفاظ، غنائیت یا موسیقیت اور تشبیہ و استعارہ اور صنائع کا سلیقہ مندی سے استعمال کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر محمد ناظم علی سابق پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج موڑتاڑ و اکیڈیمک سینٹ ممبر تلنگانہ یونیورسٹی نے اقبال کی نظم شمع و شاعر کے موضوع پر کانفرنس ہال جامع مسجد عالیہ میں محفل اقبال شناسی کی 1105 ویں نشست کو مخاطب کرتے ہوئے کیا۔ اس محفل کا آغاز حافظ محمد تنویر عالم کی قرأت کلام پاک سے ہوا۔ مقرر کا تعارف جناب محمد شمس الدین نائب صدر انتظامی کمیٹی جامع مسجد عالیہ نے کروایا۔ ڈاکٹر ناظم علی نے سلسلۂ خطاب جاری رکھتے ہوئے کہاکہ اس شاعر نے اپنے ویران گھر میں شمع کو جلتے دیکھا ہے اور اس کے گرد پروانوں کی خاک کا ڈھیر نظر آتا ہے جو اس پر نثار ہوگئے۔ شاعر حیران ہوکر سوال کرتا ہے کہ اے شمع کیا سبب ہے کہ تجھ پر فدا ہونے کو بے شمار پروانے موجود ہیں۔ اس دنیا میں چراغ لالہ صحرا کی طرح تن تنہا جل رہا ہوں، میرے گرد کوئی پروان نہیں منڈلاتا مراد یہ کہ میرے سینے میں جو پیغام پنہاں ہے اس کی تپش مجھے جلائے ڈال رہی ہے کوئی نہیں جو میری بات سنے اور سمجھے۔ اے شاعر میں تو اس لئے جلتی ہوں کہ میری قسمت میں جلنا ہی لکھا ہے مگر تو شہرت کا بھوکا ہے اور اس لئے روشن ہے کہ پروانے تیرے گرد جمع ہوں۔ بے شک تجھ میں لال صحرا کی چمک موجود ہے مگر تو حرارت سے محروم ہے یعنی عشق کی تپش موجود نہیں تو ساقی کے فرائض انجام دے گا۔ تیرا ساغر تو شراب سے خالی ہے یعنی تو عشق رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے بیگانہ ہے۔ شمع و شاعر کو تجسیم بناکر پیش کیا گیا ہے۔ ڈرامائی کیفیت کا اظہارہ ے۔ مقرر کی دعا پر نشست کا اختتام ہوا۔
