محفل اقبال شناسی کی نشست، ڈاکٹر محمد ناظم الدین کا لیکچر
حیدرآباد۔/16 نومبر، ( پریس نوٹ ) جواب شکوہ نظم اقبال کے شعری محموعہ بانگ درا میں شامل ہے۔اقبال نے 1913ء میں یہ نظم لکھی ہے ۔ 1911ء میں شکوہ لکھی ہے ، یہ ایسے وقت نظمیں تخلیق ہوئی تھیں جب کہ عالم اسلام انحطاط کے دلدل میں گرفتار تھا۔ یہ دونوں نظمیں اقبال کی شاعری کے ابتدائی دور کی نظمیں ہیں اور ان کا موضوع مسلمانوں کی پستی بیان کی۔ شکوہ میں مسلمانوں کی گذشتہ عظمت اور روشن ایام کی تصویر کشی کی گئی ہے جبکہ جواب شکوہ میں ان اسباب و علل پر روشنی ڈالی گئی ہے جو بالآخر بحیثیت قوم دنیا میں مسلمانوں کی ذات اور محکومیت پر منتج ہوئے۔ یہی نہیں بلکہ خدا نے یہ بھی واضح کردیا کہ کن اعمال کی بناء پر مسلمان دنیا میں اپنا کھویا ہوا وقار اور عظمت حاصل کرسکتے ہیں۔ خدا نے جواب شکوہ میں قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے جو خواص گنوائے ہیں ان ہی کو اپناکر مسلمان دوبارہ عزت اور سربلندی حاصل کرسکتے ہیں۔ علامہ اقبال طبعاً رجائی پسند تھے اس لئے انہوں نے شکوہ اور جواب شکوہ کو محض قومی مرثیہ نہ بناتے ہوئے ایک روشن اور تابناک مستقبل کے لئے اشارہ بھی بنادیا۔ کہتے ہیں ’’ آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا ۔ آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا ‘‘۔ یہ نظم دراصل شکوہ کا تمتہ ہے، اقبال نے شکوہ میں جو کچھ کہا ہے جواب شکوہ میں کا حرف بہ حرف جواب دیا گیا ہے۔ اس لئے دونوں کو ساتھ پڑھا جائے تبھی مفہوم واضح ہوسکتا ہے اور لطف اٹھایا جاسکتا ہے جو مسلمانوں نے خدا کے پیغام کو دنیا کے دور دراز گوشوں تک پہنچانے میں مصیبتیں برداشت کیں اس کے بعد خدا سے گلہ ہے کہ تو نے ان خدمات کا کوئی صلہ نہیں دیا تیری رحمتیں اغیار کے حصے میں آئیں اور مسلمانوں پر مصیبتیں نازل ہوتی رہیں۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر محمد ناظم علی نے اقبال کی نظم جواب شکوہ ۔ ایک جائزہ کانفرنس ہال جامع مسجد عالیہ میں محفل اقبال شناسی کی 1089 ویں نشست کو مخاطب کرتے ہوئے کیا۔ اس محفل کا آغاز حافظ محمد تنویر عالم کی قرأت کلام پاک سے ہوا۔ مقرر نے سلسلہ خطاب کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بندہ ہمیشہ اپنے آقا سے عاجزی وانکساری سے پیش آتا ہے مگر نظم شکوہ میں وہ دوبہ دو گفتگو کرنے کی گستاخی کا مرتکب ہوا ہے۔ یہی نہیں بلکہ طنز و تعریض سے بھی کام لیتا ہے۔ اس پر آسمان کے مکیں برہم ہوتے ہیں مگر وہ جو فریادرس ہے فراد سنتا ہیوہ جو سراپا رحم و کرم ہے، عفو و درگذر سے کام لیتا ہے، ایک ایک سوال کا جواب دیتا ہے۔ غلطیوں پر گرفت کرتا ہے، مسلمانوں کو راہِ نجات دکھاتا ہے، ظاہر ہے انسان کے سوال اور خدا کے جواب سب شاعر کے تخیل کا کرشمہ ہیں۔ وہ اپنے خیالات خداوندتعالیٰ کی زبان سے ادا کرادیتا ہے تاکہ ان میں وزن و وقار پیدا ہوجائے اور مسلمان ادھر متوجہ ہوں۔ جواب شکوہ کا مدعا یہ ہے کہ شاعر کی فریاد شکوہ میں کچھ ایسی تاثیر ہے کہ وہ آسمان کی بلندیوں تک جا پہنچتی ہے۔ فرشتوں کو انسان کی جرأت و بے باکی پسند نہیں آئی مگر اللہ تعالیٰ اسے سنتا ہے اور جواب میں فرماتا ہے کہ مسلمان اپنی زبوں حالی کے ذمہ دار آپ ہیں، حالت یہ ہے کہ تمہارے باز و طاقت سے محروم اور دل ہمارے محبت سے خالی ہیں تمہارے بزرگ ضرور بت شکن تھے مگر تم بت گر ہو اور تم آج جسے ہرجائی بتارہے ہو کبھی یہی خدا تمہارا محبوب تھا، روزہ نماز سے جی تم چراتے ہو، قبروں کی پرستش تم کرتے ہو بے شک تمہارے بزرگوں نے ہمارے نام کو سربلند کیا مگر ان کی خوبیاں تم میں موجود نہیں۔ ہم پر الزام ہے کہ ہم غیروں کو نوازتے ہیں اور مسلمانوں سے محض جنت کا وعدہ کرتے ہیں جن کاموں کی توقع مسلمان سے تھی اگر وہ کافر کرے گا تو انعام و ا کرام سے کیوں نوازا جائے گا۔ آج مسلمان فرقوں اور ذاتوں میں تقسیم ہیں کوئی سید، کوئی مرزا، کوئی افغان‘ مسلمان کوئی نہیں‘ ہاں غریب کسی حد تک ہماری طرف متوجہ ہیں ، امیروں کو دولت کے نشہ نے گمراہ کردیا۔ مسجدیں نمازیوں سے خالی ہیں، مسلمان ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ انہیں صرف باتیں بنانے کا فن آتا ہے کچھ کردکھانا ان کے بس کی بات نہیں ، اس لئے ان کے اقبال کا سورج غروب ہوگیا۔ شکوہ کے سوال خدا کو قائل کرنے کے لئے تھے تو جواب شکوہ کے سوال انسان کو قائل کرنے کے لئے ہیں۔ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے، نوع انسانی کو غلامی سے چھڑایا کس نے، میرے کعبہ کو جبینوں سے بسایا کس نے، میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے تم نہیں تمہارے آباء تھے۔ ڈرامائی شان رکھتی ہے استعارہ و تشبیہ اور بول چال کی زبان استعمال کی۔ مقرر کی دعاء پر نشست کا اختتام ہوا۔ پبلسٹی انچارج محافل محمد طاہر علی نے بتایا کہ اس نشست اور محافل عالیہ کے تمام پروگرامس کی ویڈیو یوٹیوب پر دستیاب ہیں، اس کا لنک ہےhttps:// ww.youtube.com/user/mahafilealiya ۔ آخر میں دعا پر محفل کا اختتام ہوا۔