عمر خالد کا موبائیل ڈاٹا 11 لاکھ صفحات پر مشتمل

,

   

پولیس تحویل میں پوچھ گچھ کے دوران 40
GB
ڈاٹا حاصل کیا گیا

نئی دہلی : جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق طالب علم عمر خالد کو دہلی پولیس کے خصوصی سیل نے جاریہ سال فروری میں شمال مشرقی دہلی کے فسادات میں ان کے مبینہ رول پر گرفتار کیا تھا۔ عمر خالد کے خلاف ایف آئی آر میں الزامات عائد کئے گئے ہیں کہ انھوں نے دو مختلف مقامات پر اشتعال انگیز تقاریر کی تھی اور شہریوں سے اپیل کی تھی کہ وہ سڑکوں پر نکل آئیں اور ڈونالڈ ٹرمپ کے دورۂ ہندوستان کے موقع پر سڑکوں پر رکاوٹوں کھڑی کردیں۔ خالد کی پولیس تحویل کی درخواست کرتے ہوئے دہلی پولیس نے عدالت سے کہا تھا کہ اِس کی کمپیوٹر ٹیم نے خالد کے موبائیل فون سے 40GB موبائیل ڈاٹا حاصل کیا ہے۔ اِس سلسلہ میں وہ اِن سے پوچھ گچھ کرنا چاہتی ہے۔ عمر خالد کا موبائیل ڈاٹا 11 لاکھ صفحات پر مشتمل ہے۔ عمر خالد کو تحویل میں لے کر پوچھ گچھ کے لئے عدالت نے دہلی پولیس کو 10 دن کی تحویل میں دیدیا۔ امراوتی میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف عمر خالد کی تقریر میں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، اِن دو تقاریر میں سے پولیس نے ایک تقریر پر توجہ مرکوز کی ہے جس میں عمر خالد کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ جب ڈونالڈ ٹرمپ 24 فروری کو ہندوستان آئیں گے تو ہم اُس وقت کہیں گے کہ وزیراعظم اور حکومت ہند اِس ملک کو توڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ عمر خالد نے اپنی تقریر میں مزید کہاکہ یہ لوگ مہاتما گاندھی کے اقدار کو تباہ کررہے ہیں۔ اِن کے خلاف ہندوستان کے عوام جدوجہد کررہے ہیں۔ اگر وہ لوگ نفرت پھیلاتے ہیں تو ہم اُس کا جواب محبت سے دیکھیں گے۔ اور وہ لوگ ہمیں لاٹھیوں سے زیر کرتے ہیں تو ہم اپنا ترنگا بلند رکھیں گے۔ خالد کے خلاف ایف آئی آر میں دہلی پولیس نے دعویٰ کیاکہ فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کی منصوبہ بند سازش کی گئی تھی۔ اِس میں دیگر دو شارٹ فلموں کے پروڈیوسر راہل رائے اور ڈاکیومنٹری فلم میکر صبا دیوان بھی ملوث تھیں۔

عمر خالد کی گرفتاری پر طلبہ یونینوں کا احتجاج
نئی دہلی : علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ قائدین نے عمر خالد کی گرفتاری پر سخت برہمی ظاہر کی۔ پولیس کی اِس کارروائی کو غیرجمہوری اقدام قرار دیا۔ طلبہ یونین کے سابق صدر فیض الحسن نے کہاکہ یہ گرفتاری شہریت ترمیمی قانون کے خلاف شروع کی گئی تحریک کو دبانے کی کوشش ہے۔ طلبہ میں خوف پیدا کرنے کے لئے یہ کارروائیاں کی جارہی ہیں۔