عوامی اسمبلی اور بنیادی مسائل

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
ریاست تلنگانہ کا بجٹ بنیادی طور پر کمزور پڑ گیا ہے ۔ کوویڈ 19 کی وجہ سے ریاست کو ملنے والا مالیہ غیر معمولی طور پر متاثر ہوچکا ہے ۔ ایسے میں ریاست کو مرکز کی امداد کی ضرورت میں شدت پیدا ہونا یقینی ہے لیکن مرکز کی حالت بھی ملک کی ریاستوں سے بدتر دکھائی دیتی ہے ۔ مودی حکومت کی نا تجربہ کاری اور معاشی تباہی نے ریاستوں کو بھی مالیاتی بحران کی گہری کھائی میں ڈھکیل دیا ہے ۔ جی ایس ٹی کی مد میں ملنے والا روپیہ بھی ریاست کو نہیں دیا گیا اس لیے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے مرکز کو مکتوب لکھ کر توجہ دلائی کہ جی ایس ٹی معاوضہ قانون کے تحت مرکز کی یہ قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست کا حصہ فوری ادا کرے ۔ سارے ملک کی وسیع تر مالیاتی پالیسی کی نگرانی جب مرکزی حکومت کرتی ہے تو ریاستوں کو اس مرکزی حکومت کے رحم و کرم پر رہنا پڑتا ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ مرکز نے ریاستوں کی مجبوری سے غلط فائدہ اٹھانے والی کئی وارداتیں انجام دی ہیں ۔ ریاستی چیف منسٹر کی اپیلیوں کو اور مکتوبات کو نظر انداز کردیا ہے ۔ چیف منسٹر تلنگانہ ، اپنی ریاست کے مالیہ کو متحرک کرنے میں ناکام ہورہے ہیں ۔ کوویڈ 19 کی وجہ سے ریاست میں سیاسی ، سماجی اور طبی شعبوں میں موجود مفاد پرست عناصر نے اپنی من مانی اس قدر بڑھا دی کہ ان کی تجوریاں بھرنے لگیں اور سرکاری خزانہ خالی کا خالی ہی رہا ہے ۔ حکومت نے تلنگانہ کو اُدھار کے کھاتے میں شامل کردیا ہے ۔ چیف منسٹر کی اسکیمات یا ناکام پالیسیوں کی وجہ سے ریاست کی معیشت کو مست نگر کے حوالے کردیا اور ریاست کی حکمرانی کو قرض کی مہ خوری سے چلانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ریاست کو قرض لینے کی نوبت تک پہونچانے کے لیے ذمہ دار ٹی آر ایس حکومت کو آنے والے دنوں میں عوام کے سامنے ایک کے بعد دیگر سوال کے لیے جوابدہ ہونا ہوگا ۔ ٹی آر ایس حکومت کو مرکز پر انحصار ہونا پڑرہا ہے ۔

ایک قرض کا بوجھ اتارنے کے لیے جب دوسرا قرض لینے کی نوبت آئے تو یوں سمجھئے کہ ریاستی عوام کے لیے خراب دن شروع ہوچکے ہیں ۔ تلنگانہ حاصل کرنے سے قبل تلنگانہ کو سنہرے تلنگانہ یا سونے کی چڑیا والی ریاست قرار دینے والے کے چندر شیکھر راؤ نے اپنے ہی ہاتھوں سے اس ریاست کو کنگال کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ اب تلنگانہ کی معیشت کو مفت خوری کے درجہ میں پہونچانے والی ٹی آر ایس حکومت کے پاس آگے کا کیا منصوبہ ہے یہ معلوم نہیں ۔ مالیاتی کمی کے پھندے سے باہر نکلنے اور ریاست کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کا بھی ایماندارانہ اور تجربہ کارانہ منصوبہ نہیں ہے ۔ ریاست کی اس دگرگوں حالات کے پیش نظر ہی مختلف رضاکار تنظیموں نے ایک منظم طریقہ سے مسائل اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ان تنظیموں نے 4 تا 6 ستمبر تلنگانہ پیپلز اسمبلی منعقد کر کے کئی مسائل کی نشاندہی کی جن کو تلنگانہ اسمبلی کے 7 ستمبر سے شروع ہونے والے اجلاس کے موقع پر سیاسی پارٹیوں کو پیش کریں گی ۔ 7 ستمبر سے شروع ہونے والا تلنگانہ اسمبلی کا سیشن ریاست میں تجارتی قواعد کے لیے نئے طور طریقہ مقرر کرے گا۔ کورونا کی وباء کے بہانے اسمبلی یا پارلیمنٹ میں وقفہ سوالات کو ختم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں ۔ جب اسمبلی میں عوامی مسائل پر غور کرنے کے لیے وقفہ سوالات ، وقفہ صفر اور مختلف مقامی مسائل پر مختصر مباحث ہی نہیں ہوں گے تو پھر یہ حکومت عوام کے دکھ درد ، تکالیف اور پریشانیوں کے بارے میں عوامی نمائندوں کے خیالات و جذبات و احساسات سے آگہی کس طرح حاصل کرے گی ۔ اسمبلی میں دن بھر چلنے والی کارروائی میں مخصوص موضوعات پر ہی غور و خوص اور بحث ہوگی جب کہ اس طرح کا ماحول ماضی میں دیکھا نہیں گیا ۔ جب اسمبلی سیشن یا پارلیمنٹ اجلاس میں وقفہ سوالات ، وقفہ صفر ہی نہیں ہوں گے تو پھر حکمراں پارٹی خود اپنے ارکان کے سوالات کی سماعت کرنے سے گریز کرے گی ۔ اپوزیشن ارکان کے لیے اسمبلی میں آواز اٹھانے کا موقع ہی چھین لیا جائے گا ۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ حکمران پارٹی اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کی تکمیل میں ہونے والی خرابیوں اور کوتاہیوں پر سوال اٹھانے کا کسی کو موقع ہی نہیں دے گی ۔ ریاست کی معیشت اور کورونا وائرس کی وباء پر قابو پانے کے لیے کیا کیا اقدامات کئے گئے اس پر حکومت کا گریباں پکڑنے کا موقع نہیں دیا جائے گا ۔

ٹی آر ایس حکومت کہتی ہے کہ اس کی حکمرانی میں ریاست میں ترقیاتی کام ہوئے ہیں ۔ کورونا پر قابو پانے میں بھی حکومت کامیاب کوشش کررہی ہے ۔ عوام اگر غور و خوص کرتے ہیں تو ٹی آر ایس حکومت کے دعوؤں اور بیانات میں تال میل نظر نہیں آئے گا ۔ اس وقت مرکز اور ریاستی حکومت کی گڈ گورننس کے نام پر جو دھاندلیاں اور افراتفری کی صورتحال برپا کی ہے ۔ اسے دیکھ کر ٹی آر ایس کے ووٹرس بھی کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ہم نے بہت بڑی غلطی کی کہ ٹی آر ایس اور اس کے سربراہ پر حد سے زیادہ یقین کرلیا ۔ بہر حال خیال اپنا اپنا بدنصیبی اپنی اپنی ، عوام کی معاشی زندگی کس قدر متاثر ہورہی ہے اس کا اندازہ کرنے کی جرأت نہیں کی جارہی ہے ۔ ریاست کی معاشی حالت کیسی ہے یہ ایک اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے ۔ اس وقت ریاست کی حکمرانی ’’ الف ‘‘ سے ’’ بے ‘‘ تک سب کچھ صرف تباہ کن ہی نہیں بلکہ مزید تباہ ہوتے جارہا ہے ۔

ٹی آر ایس حکومت کا ہر لیڈر اب اپنی حکمرانی کی بڑی اور ابتدائی جذبات کی لہر سے اُتر کر بیان دے رہا ہے ۔ ریاستی اسمبلی میں تلنگانہ کے قیام کے بعد 2014 سے ہی کوئی با معنی با مقصد مذاکرات ، بحث و مباحث نہیں ہوئے ہیں ۔ اس مسئلہ پر باریکی سے نظر رکھنے والی تنظیموں نے ہی ریاستی اسمبلی سیشن سے قبل اپنا ایک عوامی سیشن منعقد کر کے عوامی مسائل کو موضوع بحث لانے کی کوشش کی لیکن اسمبلی سیشن میں ان مسائل کی جانب توجہ ہی نہیں دی گئی تو ساری کوششیں بیکار ثابت ہوں گی ۔ ریاست میں روزگار اور ورکرس کے حقوق کا بہت بڑا بحران پایا جاتا ہے ۔ قدرتی وسائل ، عوامی حقوق کے ساتھ دیہی اور زرعی مسائل اپنی جگہ موجود ہیں ۔ سماجی مسائل ، غذائی ، سلامتی مسائل ، صحت عامہ کے مسائل اور تعلیم کے شعبہ کے مسائل اس قدر بھیانک ہیں کہ ان پر فوری توجہ نہیں دی گئی تو پھر آنے والے دنوں میں حالات کا رخ بھیانک ہوسکتا ہے ۔ ان حالات میں ریاست کے اندر حکمراں پارٹی ہو یا اپوزیشن ہر ایک کے ہاتھ سلب ہوتے دکھائی دیں گے ۔ حکومت کے خلاف کوئی اپوزیشن ہی نہیں ہے ۔ اس لیے حکومت کو بھی کوئی فکر اور ڈر نہیں ہے کہ اس کے بے رحم اداؤں پر غور کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ ریاست تلنگانہ کا حصول صرف اپنی دولت یا ایک ٹولے کی سیاسی طاقت کو بڑھانے کے لیے نہیں کیا گیا تھا ۔ ریاست کے غریب عوام کو کم از کم مساویانہ طرز زندگی گذارنے کا حق دیا جانا چاہئے مگر یہ حکومت ایسا کرنے سے بھی