غافلوں کیلئے پیغام ہے بیداری کا

   

بابری مسجد … سپریم کورٹ سے مایوسی
سبری مالا پر ریویو پٹیشن قبول، مسجد پر کیوں نہیں؟
مسلمانوں کو NRC میں الجھادیا گیا

رشیدالدین
ہندوستان میں مسلمان آزمائش کے دور سے گزر رہے ہیں۔ ایک صدمہ سے ابھر نہیں پاتے کہ دوسرا سانحہ استقبال کیلئے کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ مرکز میں نریندر مودی برسر اقتدار آنے کے بعد سے مصائب و آلام کا آغاز ہوا لیکن دوسری میعاد میں لوک سبھا میں واضح اکثریت کے بعد بی جے پی اور سنگھ پریوار بے قابو ہوچکے ہیں۔ پہلی میعاد میں جو کام ڈرتے ہوئے کئے جاتے رہے، دوسری میعاد میں بلا خوف و خطر کئے جانے لگے۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پہلی میعاد کے پانچ برسوں میں مسلمانوں پر تجربات کئے گئے اور دوسری میعاد میں خفیہ ایجنڈہ پر عمل آوری کا آغاز ہوا جو اصل میں ہندوتوا ایجنڈہ ہے۔ گزشتہ چھ برسوں میں مختلف عنوانات کے تحت مسلمانوں کو اذیت میں مبتلا کیا گیا بلکہ صبر کا امتحان لیا گیا ۔ لو جہاد ، گھر واپسی ، گاؤ رکھشا کے نام پر ہجوم تشدد، طلاق ثلاثہ ، کشمیر سے 370 کی برخواستگی ، رام مندر ، این آر سی اور شہریت ترمیمی قانون کے ذریعہ مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کی کوشش کی گئی۔ مودی حکومت نے دوسری میعاد کے آغاز کے ساتھ ہی ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری تیز کردی ہے۔ سنگھ پریوار کا نشانہ ہندو راشٹر کی تشکیل ہے ۔ اس کام میں ملک کے دستوری اور قانونی اداروں کو ہموار کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی ۔ جس تیزی سے مسلمانوں کو عدم تحفظ کا شکار کرنے اور دوسرے درجہ کا شہری بنانے اور شہریت کو مشکوک کرنے کی سازش کی گئی۔ یہ ملک کے اتحاد اور سالمیت کیلئے خطرہ بن سکتا ہے۔ مسلمانوں نے ایک ہزار برس تک ملک پر حکمرانی اور جہاں بانی کی۔ ملک کے چپہ چپہ میں ہماری عظمتوں کے نشان ہندوستان کے وقار میں اضافہ اور خوبصورتی میں چار چاند لگا رہے ہیں لیکن آج ماضی کے حکمرانوں کی نسل سے شہریت کا ثبوت مانگا جارہا ہے۔ ایک ہزار برس کی تاریخ مذہبی رواداری اور مساوی انصاف کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ طویل دور حکمرانی میں مسلمان کبھی بے قابو نہیں ہوئے ۔ بر خلاف اس کے پانچ برسوں میں بی جے پی بے قابو ہوچکی ہے اور جنون کی حد تک مسلمانوں کے خلاف قدم اٹھائے جارہے ہیں۔ پانچ برسوں میں حال کچھ یوں ہوگیا جیسے ’’نادیدہ کو ملیدہ ملا تو فاتحہ دینے ملا نہیں ملا‘‘۔ بابری مسجد اراضی ملکیت معاملہ میں 9 نومبر کے سپریم کورٹ کے فیصلہ سے مسلمان سنبھل نہیں پائے کہ شہریت ترمیمی قانون کو منظوری دیتے ہوئے NRC پر عمل آوری کی سمت پیشرفت کی گئی۔ اپنے وقت کے حکمرانوں کی نسل سے شہریت کا ثبوت مانگا جارہا ہے جبکہ تین ممالک کے غیر مسلموں کا سرخ قالین استقبال اور انہیں شہریت کا پیشکش کیا گیا۔

غیر ملکی شہریوں کو شہریت اور ملک کے حکمرانوں کی شہریت پر شبہ ۔ سپریم کورٹ نے 9 نومبر کو شواہد اور دلائل کی بنیاد پر فیصلہ کی بجائے آستھا اور عقیدہ کی بنیاد پر 2.77 ایکر اراضی مندر کی تعمیر کے حوالے کردی۔ مسلمانوں نے دستوری حق کا استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کے خلاف ریویو پیٹیشن دائر کی لیکن افسوس کہ پہلے ہی دن سماعت کے مرحلہ میں تمام درخواستوں کو مسترد کردیا گیا ۔ ماہرین قانون کے مطابق عام طور پر درخواست نظرثانی کو مسترد کیا جاتا ہے لیکن مسئلہ کی اہمیت اور 9 نومبر کے فیصلہ میں مسلم فریق سے ناانصافی کو دیکھتے ہوئے معاملہ کو 7 رکن ی دستوری بنچ سے رجوع کرنے کی گنجائش موجود تھی۔ ریویو پٹیشن مسترد کئے جانے کے بعد اب واحد راستہ Curative پٹیشن ہے لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ سپریم کورٹ اس آخری کوشش کو قبول کرے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں سبری مالا مندر میں خواتین کے داخلہ کی اجازت سے متعلق پانچ رکنی بنچ کے فیصلہ کے خلاف ریویو پٹیشن نہ صرف قبول کی بلکہ اسے سات رکنی دستوری بنچ سے رجوع کیا۔ ریویو پٹیشن داخل کرنے والے کوئی اور نہیں خود مرکزی حکومت ہے۔ ہندوؤں کی آستھا کی دلیل پیش کرتے ہوئے سبری مالا مندر میں خواتین کے داخلہ کی مخالفت کی جارہی ہے ۔ سپریم کورٹ نے دستوری بنچ سے معاملہ کو رجوع کرتے ہوئے مساجد میں مسلم خواتین کے داخلہ کو جوڑ دیا۔ اگرچہ یہ دونوں مختلف امور ہیں لیکن عدلیہ ہو کہ حکومت ہر کسی کو شرعی امور اور مسلم خواتین سے کچھ زیادہ ہی ہمدردی ہوچکی ہے ۔ سپریم کورٹ کے مکمل احترام کے ساتھ ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ جب سبری مالا مندر مسئلہ پر ریویو پٹیشن قبول کی جاسکتی ہے تو بابری مسجد مسئلہ میں کیوں نہیں جبکہ دونوں مقدمات میں پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ تھا ۔ اتفاق سے دونوں معاملات آستھا سے جڑے ہوئے ہیں۔ جب آستھا اور عقیدہ کو دلائل اور ثبوت پر ترجیح دی جارہی ہے تو پھر تمام مذاہب کے ماننے والوں کی آستھا کا احترام کیا جائے ۔ کیا ملک میں صرف اکثریتی طبقہ کی آستھا کا احترام ہوگا۔ ملک کی دوسری بڑی اکثریت اور واحد بڑی اقلیت کے عقیدہ اور آستھا کی کوئی اہمیت نہیں ؟ آستھا کے تحفظ کی ایک اور مثال ٹاملناڈو ہے جہاں روایتی جلی کٹو رسم سپریم کورٹ نے پابندی عائد کردی تھی جس کے خلاف ٹامل عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ آخرکار مرکز کو قانون سازی کے ذریعہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو بے اثر کرنا پڑا۔ سبری مالا مندر اور جلی کٹو معاملات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دنیا صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے۔ بزدل ، کمزور کی مدد تو خدا بھی نہیں کرتا ۔ بیواؤں کی طرح آہ و بکا سے حقوق کا تحفظ نہیں کیا جاسکتا۔ شاہ بانو کیس کے بعد مسلمانوں نے کسی معاملہ میں اتحاد اور طاقت کا مظاہرہ نہیں کیا جس کے نتیجہ میں پے در پے حملے ہورہے ہیں اور کسی بھی سطح پر سنوائی نہیں ہے۔
انصاف کے سلسلہ میں عوام کو جب حکومتوں سے مایوسی ہونے لگی تو عدلیہ پر اعتماد بڑھ گیا۔ عدلیہ نے اپنے دستوری فرائض کی تکمیل کرتے ہوئے کئی معاملات میں انصاف کے حق میں فیصلہ سنایا۔ انصاف کے لئے عدلیہ کو امید کی کرن کے طور پر دیکھا جاتا رہا لیکن بابری مسجد مقدمہ میں عدلیہ کے رویہ سے انصاف کی آخری امید بھی ختم ہوگئی ۔ 9 نومبر کے فیصلہ میں سپریم کورٹ نے مسجد کے وجود اور نماز کی ادائیگی کو تسلیم کیا، عدالت نے مانا مسجد میں راتوں رات مورتیاں رکھنا اور 6 ڈسمبر 1992 ء کو شہید کرنا غیر قانونی ہے ۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ مندر توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی۔ زمین کس کی، مسجد کی لیکن ملے گی کس کو ، مندر کو ۔ بدلہ میں 5 ایکر زمین ۔ تمام حقائق کو تسلیم کرنے کے باوجود آستھا کی بنیاد پر فیصلہ سنایا گیا۔ اس طرح ثبوت اور دلائل کو آستھا پر قربان کیا گیا ۔ آستھا پر فیصلہ پھر اس پر اٹل رہتے ہوئے درخواست نظرثانی قبول کرنے سے انکار ، کیا انصاف رسانی کے فریضہ سے فرار نہیں ؟ تحت کی عدالتوں کے بعد سپریم کورٹ آخری امید تھی لیکن مسلمانوں کو مایوسی ہوئی ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد مولانا ابوالحسن علی ندوی علی میاں نے کہا تھا کہ وہ اس مسئلہ کو ہندوستانی قوم کے ضمیر پر چھوڑتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسجد کی جگہ پر مندر کی تعمیر کی عدالت کی جانب سے اجازت کے بعد ہندوستانی قوم کا ضمیر جاگتا ہے یا نہیں ۔ بابری مسجد اور شریعت سے متعلق مسائل پر مسلمانوں کی بے حسی میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ کے فیصلہ تک مسلمانوں میں کوئی ہلچل نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہم خاموش احتجاج کیلئے بھی تیار نہیں۔ اگر یہی بے حسی چھائی رہی تو سنگھ پریوار کا اگلا نشانہ حلالہ، تعداد ازدواج اور وراثت کا شرعی قانون رہے گا ۔ ہندوتوا ایجنڈہ کی آخری منزل ملک میں یکساں سیول کوڈ کا نفاذ ہوگا۔ بہادر یار جنگ اکثر کہا کرتے تھے کہ مسلمانوں کو سونے کی عادت ہوچکی ہے، انہیں ٹھونگیں مارکر جگانے کی ضرورت ہے۔ ایک اور تقریر میں بہادر یار جنگ نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ وہ احساس کو اپنے میں زندہ رکھیں ورنہ اسپین کا حال ہوگا جہاں 800 برس تک مسلمانوں نے حکمرانی کی لیکن جب احساس ختم ہوگیا تو انہیں مٹا دیا گیا ۔ مساجد گھوڑوں کے اصطبل اور گرجا گھروں میں تبدیل ہوگئے۔ ملک کی سب سے قدیم اور تاریخی مسجد کی جگہ مندر تعمیر ہونے جارہی ہے۔ پتہ نہیں ملک کی دیگر مساجد کا کیا حشر ہوگا ۔ اللہ کی گھر کی جگہ مندر کی تعمیر سے بڑا سانحہ مسلمانوں کے لئے کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ یہ مسئلہ شہریت قانون سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے لیکن منصوبہ بند طریقہ سے مسلمانوں کو این آر سی اور شہریت قانون میں الجھا دیا گیا ہے ۔ شمال مشرقی ریاستوں کے عوام نے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے شہریت قانون کے خلاف ایسا احتجاج درج کرایا کہ نئی دہلی کی بنیادیں ہلنے لگیں۔ ہمیں شریعت اور دستوری حقوق کے تحفظ کیلئے زندہ قوم کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ آسام کی طرح تشدد نہ سہی پرامن اور خاموش احتجاج کے ذریعہ حکومت کو خفیہ ایجنڈہ پر عمل آوری سے روکا جاسکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ہم احساس کا ثبوت دیں۔ علامہ اقبال نے شائد آج کے لئے یہ پیام دیا تھا ؎
ہے جو ہنگامہ بپا یورش بلغاری کا
غافلوں کیلئے پیغام ہے بیداری کا
تو سمجھتا ہے یہ سامان ہے دل آزاری کا
امتحاں ہے ترے ایثار کا خودداری کا