غریبوں کو راحت و امداد کی تشہیر

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
لاک ڈاؤن میں غریبوں کو دینے کے لیے کہیں شوز منظم کیے جارہے ہیں تو کہیں تماشے ہورہے ، کہیں تشہیری ویڈیو بنائے جارہے ہیں ۔ کورونا وائرس کے خطرہ کی وجہ سے سماجی دوری برقرار رکھنے کا عوام کو پابند بنانے کی خاطر لاک ڈاؤن کیا گیا لیکن سماجی دوری کی دھجیاں اڑانے والے واقعات ہر روز دیکھے جارہے ہیں ۔ جہاں اناج ، ضروری اشیاء کی تقسیم ہورہی ہے وہاں کا منظر یہ ہرگز دکھائی نہیں دیتا کہ یہاں لاک ڈاؤن یا سماجی دوری کا اصول نافذ ہے۔ جیسے کوئی صاحب خیر یا فلاحی تنظیم یا علاقائی لیڈرس یا حکومت کے نمائندے غریبوں میں اناج تقسیم کرنے پہونچتے ہیں تو وہاں ایسا ہجوم دیکھا جاتا ہے یا ایسے تگڑے ، توانا اور مستنڈے قسم کے لوگ دیکھے جاتے ہیں جو پیشہ ور لیٹرے ہیں اور اس اناج کی تقسیم کی تاک میں بیٹھے تھے ، امداد تقسیم کرنے والوں پر ٹوٹ پڑے اور کھانے پینے کے سامان کے تھیلے اڑا کر چلے گئے ۔ اس ٹوٹ پڑنے والے ہجوم کے پیچھے وہ متوسط طبقہ کے معصوم چہرے جو سرجھکائے کھڑے تھے جیسے خالی ہاتھ آئے تھے ویسے ہی خالی دامن لیے اپنے اپنے گھروں کو واپس ہوگئے ۔ کچھ دیر بعد لوٹ کر چلے جانے والے مستنڈے لوگ لوٹے ہوئے تھیلے لے کر محلے کی دکانوں پر فروخت کرنے کے لیے پہونچ جاتے ہیں ۔

امداد بھی اس قدر اور بے سوچے سمجھے دی جارہی کہ کسی غریب کے پاس کوئی امداد ہی نہیں پہونچی تو کہیں امداد کا انبار لگ گیا ہے ۔ یہ امداد حاصل کرنے والوں کے لیے لاک ڈاون نے ایک بہترین روزی پیدا کردی ہے ۔ امدادی سامان لے کر اسے کرانہ کی دکانات پر فروخت کیا جارہا ہے یا اس اناج کے عوض اپنی تعیش یا پسند کی چیزیں خریدی جارہی ہیں ۔ کورونا وائرس کے نام پر غریبوں کے نام پر جاری ہونے والی امداد پر بھی مستنڈوں ، لٹیروں نے اپنا ہاتھ چھینا ہے تو پھر ایسی امدادی کوششیں بے فیض ہیں ۔ حکومت نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ اس نے ریاست میں 1.03 کروڑ خاندانوں کے منجملہ 76.67 لاکھ سفید راشن کارڈ رکھنے والوں کو یا فوڈ سیکوریٹی کارڈس گیرندوں کو راشن تقسیم کی ہے ۔ چیف منسٹر نے ہر غریب کو 12 کیلو چاول اور 1500 روپئے دینے کا اعلان کیا تھا ۔ حکومت کے بیان کے مطابق یہ وعدہ پورا کیا گیا ہے ۔ غریبوں کے بینک اکاونٹس میں 1500 روپئے جمع کردئیے گئے ہیں ۔ اس پروگرام پر 2500 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے ۔ 3 لاکھ ٹن چاول کی تقسیم کوئی بڑی بات تو نہیں ہے لیکن یہ چاول واقعی غریبوں تک پہونچ گیا ہے اس کی تصدیق کہاں تک کی جاسکتی ہے ۔ بیانات اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کئی غریب خاندانوں کو ہنوز ایسی سرکاری امداد کا انتظار ہے ۔ شہر حیدرآباد کے کئی علاقوں میں عوام نے شکایت کی ہے کہ اب تک کوئی امداد نہیں ملی ۔ نہ ہی سرکاری اور نہ ہی خیراتی امداد حاصل ہوسکی تو پھر ہر روز سوشیل میڈیا پر شور مچانے والے اور امداد تقسیم کرنے کی نمائش کرنے والی تقاریر کیا ثابت کررہی ہیں ۔ حکومت کو یہ پتہ چلنا ضروری ہے کہ اس کی امداد مستحقین تک پہونچی ہے یا نہیں ۔ سفید کارڈ گیرندوں تک مفت چاول اور 1500 روپئے کی راحت پہونچی ہے تو یہ غریب لوگ خوش نصیب ہیں ۔ جن لوگوں تک حکومت کی امداد پہونچی ہے انہوں نے چیف منسٹر کے سی آر سے اظہار تشکر بھی کیا ہے ۔ ضلع نلگنڈہ کے نکریکل میں ایک دوکان میں کام کرنے والے محمد فہیم نے کہا کہ انہیں ایس ایم ایس موصول ہوا ہے ان کے بینک اکاونٹ میں 1500 روپئے جمع ہوئے ہیں اور وہ پہلے ہی 36 کیلو گرام مفت چاول حاصل کرچکے ہیں ۔ اب حکومت نے غریبوں کی مدد کرنے کے اپنے وعدہ کو پورا کیا ہے ۔ اس طرح کا ردعمل ریاست میں تقریبا لوگوں کی طرف سے آنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے جو خاندان وائیٹ کارڈ رکھتے ہیں انہیں امداد پہونچ چکی ہے ۔ حکومت کے نمائندے بھی ریاست کے چند علاقوں میں چند لوگوں کا ردعمل معلوم کر کے حکومت کو رپورٹ دیدی ہے کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی امداد ریاست کے غریبوں تک پہونچ چکی ہے ۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ تلنگانہ کے عوام میں کورونا وائرس سے لڑنے کی طاقت ہے لیکن وہ معاشی اثرات برداشت کرنے کی قوت نہیں رکھتے ۔ دنیا کے امیر ترین ممالک جہاں فی کس آمدنی ہندوستان کی نسبت بہت زیادہ ہے وہاں بھی خاص کر امریکہ کی حکومت نے کورونا کی وجہ سے عوام کو راحت دینے کی اسکیمات بنائی ہیں اور بینکوں میں رقومات جمع بھی کئے جارہے ہیں ۔

ہر ایک گھر کو ہزار ڈالر دئیے گئے ہیں دنیا بھر میں حکومتوں کی جانب سے عوام کو کئی راحتیں دی جارہی ہیں جیسے برقی ، گیس کے بلوں میں کمی ہورہی ہے ۔ لوگ بھی ایک دوسرے کی مدد کررہے ہیں ۔ لوگوں نے گھروں کے باہر اشیاء صرف ٹیبل پر رکھ دی ہیں کہ جس کو جو ضرورت ہے وہ لے جائے ۔ لیکن یہاں ضروری اشیاء کی تقسیم کا اعلان ہوتا ہے تو اس تقسیم کی جگہ پر سب سے پہلے غیر مستحق اور بیکار باش لوگ کھڑے نظر آتے ہیں ۔ کورونا کی وجہ سے لاک ڈاون ہوا اس کے اثر سے مزدور طبقہ متاثر ہوا ۔ لوگوں نے تعمیراتی کام بند کردیا ۔ رنگ و روغن کا کام کرنے والے بھوکے ہوگئے ۔ الیکٹریشن ، پلمبر ، حجام اور دیگر چھوٹے چھوٹے کام کرنے والے سب بیروزگاری کی مار برداشت کررہے ہیں ۔ یہ لاک ڈاؤن کورونا کے خوف سے لگایا گیا لیکن اس کی کوکھ سے معاشی لاک ڈاؤن نے جنم لیا ہے ۔ یہ معاشی لاک ڈاؤن کورونا سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوگا تو پھر حکومت کو آگے کے حالات پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا ۔ حکومت نے لاک ڈاؤن میں 3 مئی تک توسیع کردی ، البتہ بعض علاقوں میں صنعتی فیکٹریاں سرگرمیاں کھول دی جائیں گی ۔ لیکن رمضان المبارک کے پیش نظر مساجد کی کشادگی کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا خوف بتاکر انکار کردیا گیا ۔ رمضان کے مقدس مہینے میں مسلمانوں کو اپنے گھروں میں ہی افطار کرنے اور تراویح ادا کرنی ہوگی ۔ ساری دنیا میں ماہ رمضان کی عبادتیں بند گھروں کے اندر ہی ہوں گی ۔ سعودی عرب نے بھی اس ماہ مقدس کو حرم شریف میں عبادتوں کو روک دیا ہے ۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ جب اللہ ناراض ہے تو بگڑے کام کیسے سنور سکتے ہیں ۔ مسلمانوں نے شاید اللہ کو ناراض کیا ہے ۔ جس کی وجہ سے پوری دنیا میں یہ کہرام مچا ہے ۔ ان پر مساجد کے دروازے بند ہوگئے ہیں ۔ سعودی حکمرانوں نے اپنی جان بچانے کی خاطر وائرس کی رفتار کے سامنے بے بسی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ایک مسلم معاشرہ میں مساجد کو بند کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے مساجد سے بہتر کوئی جگہ نہیں ، لیکن اس وقت جس انداز سے مساجد کو بند کرانے کی کوشش کی ۔ اس سے خالق بھی ناراض اور مخلوق بھی ناراض ہوگی ۔ ہندوستان میں تو میڈیا اور حکومت نے مل کر کورونا وائرس کو ایک مذہب اور ایک طبقہ سے منسلک کردیا جب کہ کورنا وائرس کوئی مسلک ہے نا کوئی مذہب ۔ یہ ایک وباء ہے جو کسی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ۔ ٹی وی چیانلوں نے جو نفرت کے بیج بونے شروع کئے ہیں اس سے آج سارے ہندوستان میں مسلمانوں سے دوری پیدا کرنے کی سازش کی جارہی ہے ۔ غریب مسلم ٹھیلہ بنڈی رانوں کو تنگ کیا جارہا ہے یہ حالات کورونا وائرس یا لاک ڈاؤن سے زیادہ خطرناک ہیں جو اس ملک ریاستوں اور شہروں کو نفرت کی آگ میں جھونک دیں گے ۔