غزہ جنگ بندی معاہدہ کو اسرائیل سے خطرہ

   

امجد خان
غزہ کی مکمل تباہی و بربادی اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 76 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادت اور دو لاکھ سے زائد فلسطینیوں کے زخمی ہونے کے بعد جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بڑے جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس جنگ بندی کا سہرا بھی اپنے سر باندھ لیا اور بے شمار ممالک نے نہ چاہتے ہوئے بھی مجبوراً ٹرمپ کی تعریف و ستائش کی جبکہ خود کے اسلامی جمہوریہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے پاکستان نے ٹرمپ کو امن کا نوبل انعام دینے کی اسی طرح سفارش کی جس طرح فلسطینیوں کے قاتل بنجامن نیتن یاہو کی حکومت نے کی تھی۔ حالانکہ پاکستانی حکومت اور قیادت اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ 7 اکٹوبر 2023ء سے جنگ بندی تک 76 ہزار سے زائد جو فلسطینی شہید ہوئے ان میں پھول جیسے بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے جبکہ زائداز دو لاکھ زخمیوں میں سے نصف ایسے ہیں جو مستقل طور پر معذور ہوچکے ہیں۔ بہرحال امن کے نوبل انعام کے اعلان سے ایک دن قبل ہی بڑی تیزی کے ساتھ غزہ میں جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔ اس کے لئے ٹرمپ انتظامیہ نے بادل نخواستہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو پر دباؤ بھی ڈالا اور اسے رجھانے کے لئے بار بار حماس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکیاں بھی دیں لیکن افسوس صد افسوس کہ اسرائیل نے جنگ بندی کے باوجود غزہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا اور پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ جنگ بندی کے صرف دو دن میں سو سے زائد فلسطینی شہید ہوئے اور بے شمار زخمی ہوئے۔ اب تو حال یہ ہے کہ خود اقوام متحدہ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اسرائیل کی بمباری میں 90 فیصد غزہ تباہ و برباد ہوگیا ہے اور زائداز 19.5 ملین آبادی بے گھر ہوئی اور تباہ حال فلسطینی جب اپنی بستیوں میں واپس ہوئے تب انھیں اپنے مکانات کی جگہ ملبہ کے ڈھیر نظر آئے لیکن سلام ہے فلسطینیوں کو جنھوں نے اسرائیل کی درندگی کے باوجود اپنی جانوں، اپنے مال اور آل اولاد کو اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہوئے اپنے ایمان اپنے دین کو منہدم ہونے سے بچایا۔ اپنے گھروں سے بے گھر فلسطینیوں کی تباہ حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اب قبرستانوں میں خیمہ نصب کرکے اُن خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اب بھی وہ بھوک و پیاس کا شکار ہیں۔ اس کے باوجود خالی پیٹ اور ان کی سوکھی زبانوں اور سوکھے لبوں سے شکر اللہ (اللہ تیرا شکر ہے) کے کلمات جاری ہیں۔ وہ اس بات پر خوش ہیں کہ انھوں نے ارض مقدس فلسطین کو بچانے قبلہ اوّل بیت المقدس کا تقدس برقرار رکھنے اور اسے ظالم اسرائیل کے شکنجہ سے آزاد کرانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اپنے مال، اپنی جان، اپنی آل اولاد کو بھی قربان کردیا۔ غزہ میں ایسے ہزاروں خاندان ہیں جن کا کم از کم ایک فرد خاندان امریکہ کے حمایت یافتہ اسرائیل کی درندگی کا شکار ہوکر جام شہادت نوش کیا۔ الجزیرہ کی ایک رپورٹ میں اقوام متحدہ اہلکاروں کے حوالہ سے بتایا گیا کہ غزہ میں فی الوقت کم از کم ایسے 15000 فلسطینی موجود ہیں جنھیں علاج کے لئے بیرون ملک منتقل کرنا ضروری ہے لیکن اسرائیل ان شدید بیمار فلسطینیوں کی بیرون ملک منتقلی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسرائیل کی شیطانیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے کئی کراسنگس پر رُکے ہوئے امدادی ٹرکس کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہا ہے حالانکہ جنگ بندی معاہدہ میں یہ طے پایا تھا کہ امدادی ٹرکس کو بلا روک ٹوک غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ فی الوقت اسرائیل ایسا لگتا ہے کہ جنگ بندی سے خوش نہیں ہے اور جنگ بندی معاہدہ پر عمل کرنے میں سنجیدہ بھی نہیں۔ خود امریکہ کو اس بات کا بخوبی احساس ہوگیا ہے۔ الجزیرہ کی ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیل پر جنگ بندی معاہدہ کی شرائط پر عمل آوری کیلئے دباؤ ڈالنے کی خاطر امریکہ نے مارکو روبیو کو اسرائیل روانہ کیا ہے۔ ویسے بھی اسرائیل کی امن دشمنی اور انسانیت دشمنی کے نتیجہ میں غزہ کے مکینوں کو ہر روز اپنی بقاء کی جنگ لڑنی پڑرہی ہے۔ کئی ایسے ہیں جو اسرائیلی فوجی دستوں کی موجودگی کے باعث اپنے تباہ شدہ مکانات کو واپس ہونے سے قاصر ہیں۔ ڈاکٹرس وتھاوٹ بارڈرس کے مطابق غزہ میں ایک ملین سے زائد فلسطینی ہنوز ایک چھوٹے سے علاقہ میں انتہائی بُری حالت میں رہنے اور اپنی بقاء کو یقینی بنانے میں مصروف ہیں۔ جیسا کہ ہم نے آپ کو سطور بالا میں بتایا ہے کہ اسرائیل غزہ جنگ بندی پر عمل آوری سے گریز کررہا ہے ایسے میں ترکیہ کے صدر رجب طیب اردغان کا کہنا ہے کہ امریکہ اور دوسرے ممالک کو چاہئے کہ وہ جنگ بندی معاہدہ کی پاسداری کے لئے اسرائیل کو مجبور کرے جبکہ ان کا دعویٰ ہے کہ ترکیہ غزہ ٹاسک فورس کی ہر طرح سے مدد کے لئے تیار ہے۔ طیب اردغان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حماس پوری طرح جنگ بندی معاہدہ کی پاسداری کررہی ہے۔