غزہ جنگ کے دو سال مکمل ‘ 67 ہزار فلسطینی شہید ‘ بستیاں ویرانوں میں تبدیل

,

   

19 لاکھ افراد بے گھر ۔ 90 فیصد مکانات ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل ۔ 465 اسرائیلی فوجی او ر 1200 شہری جہنم رسید

غزہ سٹی ۔ 8 اکٹوبر (ایجنسیز) غزہ میں شروع ہوئی جنگ کو دو سال پورے ہوچکے ہیں۔ ان دو برسوں میں فلسطینیوں پر قیامت صغری گذرگئی اور وہاں جو تباہی ہوئی ہے اس کا دنیا اندازہ بھی نہیں کرسکتی ۔ اس وحشیانہ جنگ اور فلسطینیوں کی منظم نسل کشی میں اسرائیل کو امریکہ کی مکمل تائید و حمایت حاصل رہی اور اسرائیل اپنی جارحیت کے ساتھ توسیع پسندانہ منصوبوں پر عمل پیرا ہے ۔ جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں ان کے مطابق غزہ میں دو سال سے جاری جنگ میں تقریبا 67000 نہتے فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا ہے ۔ جو اموات ہوئی ہیں ان میں 80 فیصد سے زائد عام شہری تھے جنہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے ۔ اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں میں ایک لاکھ 20 ہزار افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ مہلوکین میں ایسے دو ہزار افراد شامل ہیں جو غذا حاصل کرنے گئے تھے اور انہیں حملوں کا نشانہ بنایا گیا ۔ دو سال کی جنگ کے دوران 19 لاکھ افراد غزہ اور دوسرے مقامات پر بے گھر ہو کر رہ گئے ہیں۔ غزہ اور دیگر مقامات پر اسرائیلی حملوں کے ذریعہ تقریبا 90 فیصد مکانات کو تباہ کردیا گیا ہے ۔ اسرائیل کی ناکہ بندی اور تحدیدات کے نتیجہ میں غذائی اجناس تک غزہ پہونچنا ممکن نہیں رہ گیا تھا جس کے نتیجہ میں 450 افراد فاقہ کشی سے فوت ہوئے ہیں اور ان میں 150 بچے بھی شامل ہیں۔ حالانکہ دنیا بھر کے 160 ممالک نے فلسطین کو بحیثیت مملکت تسلیم کرلیا ہے تاہم اسرائیل اور امریکہ کی جارحیت اور وحشیانہ کارروائیاں جاری ہیں۔ ان دو برس کی جنگ میں اسرائیل کے 465 سپاہی مارے گئے ہیں۔ جملہ 1200 اسرائیلی شہریوں کی بھی موت ہوئی ہے اور 251 کو یرغمال بنالیا گیا ہے۔ جنگ کے دوران مختلف کارروائیاں کرتے ہوئے اسرائیل نے حماس کے قائدین اسمعیل ہنیہ اور یحیی سنوار کا بھی صفایا کردیا ۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو نے غزہ میں جنگ کے دو نشانے مقرر کئے تھے ۔ ایک نشانہ تمام یرغمالیوں کو رہا کروانا تھا اور حماس کو تباہ کرنا تھا ۔ تاہم دو برس گذر جانے کے باوجود بھی دونوں ہی مقاصد کی تکمیل نہیں ہو پائی ہے ۔ 251 یرغمالیوں میں صرف 148 کی رہائی عمل میں آئی ہے ۔ 8 قیدیوں کو اسرائیل کی مسلح افواج نے رہا کروایا جبکہ 140 کو قیدیوں کے تبادلے کے ذریعہ واپس لایا گیا ہے ۔ حماس کی قید میں اب بھی 48 قیدی ہیں جن میں سمجھا جاتا ہے کہ صرف 20 ہی زندہ بچ پائے ہیں۔ اسرائیل نے حزب اللہ کے لیڈر حسن نصر اللہ اور کئی جنگجووں کو جنوبی لبنان پر حملے کرتے ہوئے شہید کردیا ہے ۔ اسرائیل نے ایران میں بھی نیوکلئیر تنصیبات کو نشانہ بناکر حملے کئے ۔ ایران میں ہی اسمعیل ہنیہ کو قتل کیا گیا ۔ شام میں بشارالاسد کی اقتدار سے محرومی نے ایرانی اتحادیوں کو کمزور کردیا ہے ۔ اسرائیل میں جارحیت پسند دائیں بازو کے وزراء کا وزیر اعظم نتن یاہو سے مطالبہ ہے کہ وہ فوجی کارروائی شروع کریں اور طاقت کے بل پر مغربی کنارہ پر بھی قبضہ کرلیا جائے ۔ 60 فیصد اسرائیلی عوام جنگ بندی کے حامی ہیں اور چاہتے ہیں کہ جنگ کو روکا جائے ۔
ٹرمپ نے کہا ہے حماس کو غزہ امن منصوبے کو
قبول کرنے پر قائل کریں: اردغان
انقرہ، 8 اکتوبر (یو این آئی) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ترکی سے کہا ہے کہ وہ حماس کو اس کے پیش کردہ غزہ جنگ کے خاتمے کے منصوبے کو قبول کرنے کیلئے ‘ قائل’ کرے ۔ العربیہ انگلش کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردغان نے چہارشنبہ کے روز اپنے دفتر کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ حماس کو اس کے پیش کردہ غزہ جنگ کے خاتمے کے منصوبے کو قبول کرنے کیلئے ‘ قائل’ کریں۔
طیب اردغان کے یہ ریمارکس ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب اسرائیل اور حماس کے مذاکرات کاروں کے درمیان مصر کے سیاحتی مقام شرم الشیخ میں بالواسطہ مذاکرات تیسرے روز میں داخل ہوگئے ہیں۔ ان مذاکرات کا مقصد دو سال سے جاری غزہ جنگ کو روکنا ہے اور ان میں قطر، ترکی اور امریکہ کے اعلیٰ حکام بھی شریک ہیں۔ اردغان نے منگل کی رات آذربائیجان سے واپسی کے دوران طیارے میں ترک صحافیوں کو بتایا: ‘ امریکہ کے دورے کے دوران اور ہماری حالیہ فون کال میں، ہم نے ڈونالڈ ٹرمپ کو بتایا کہ فلسطین میں کس طرح ایک حل ممکن ہے ۔ انہوں نے خاص طور پر ہم سے کہا کہ ہم حماس سے ملاقات کریں اور انہیں قائل کریں۔’ فلسطینی مقصد کے ایک پرزور حامی کے طور پر، ترک صدر جو حماس کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہیں، اکثر اسرائیل پر غزہ میں ‘ نسل کشی’ کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ یہ بالواسطہ مذاکرات ٹرمپ کی جانب سے گزشتہ ماہ پیش کیے گئے 20 نکاتی منصوبے پر مبنی ہیں، اور ایک ترک وفد، جس کی قیادت انٹیلی جنس چیف ابراہیم کالن کر رہے ہیں، چہارشنبہ کو مذاکرات میں شامل ہونے والا ہے ۔