غزہ میں پانی کی فراہمی پر اسرائیلی پابندی ’قتل عام‘ کے مترادف

   

نیویارک : انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں پانی کی فراہمی کو منظم طریقہ سے محدود کر کے اور اسے ہدف بنا کر ہزاروں فلسطینیوں کی موت کا باعث بن رہا ہے اور اس کی یہ مہم قتلِ عام کی کارروائیوں کے مترادف ہے۔ اسرائیل نے ان الزامات کی یہ کہہ کر سختی سے تردید کی ہے کہ اس کی جنگ غزہ کے شہریوں کے خلاف نہیں بلکہ حماس کے عسکریت پسندوں کے خلاف ہے۔ ہیومن رائٹس واچ ان ناقدین میں تازہ ترین اضافہ ہے، جنہوں نے اسرائیل پر غزہ کی جنگ میں قتلِ عام کی کارروائیوں کے ارتکاب کا الزام لگایا ہے۔ رواں ماہ کے آغاز میں انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ اسرائیل اور اس کی فوج نے 1948 کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے جسے اقوام متحدہ کی حمایت حاصل ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جس کنونشن کا حوالہ دیا تھا اس میں نسل کشی سے مراد کسی قوم، نسلی یا مذہبی گروپ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے کی جانے والی کارروائیاں ہیں۔ جمعرات کو جاری کی گئی اپنی نئی رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ نے الزام لگایا ہے کہ اسرائیلی حکام کی جانب سے غزہ میں پانی اور بجلی کے بہاؤ کو جان بوجھ کر بند کرنے، بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے اور ضروری سامان کی تقسیم کو روکنے کے ایک سال سے زائد عرصے کے دوران کیے گئے اقدامات کے نتیجے میں لاتعداد شیر خوار، بچے اور بالغ افراد غذائی قلت، پانی کی کمی اور بیماریوں سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ نیویارک میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم نے کہا کہ ایک ریاستی پالیسی کے طور پر، یہ کارروائیاں شہری آبادی کے خلاف کیا جانے والا ایک وسیع یا منظم حملہ ہے۔ اس لیے اسرائیلی حکام انسانیت کے خلاف قتل عام کے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔