فتنہ انگیز اور نقلی صلیبی جنگیں

   

پی چدمبرم
میں نے تاریخ کے ایک صفحہ کا مطالعہ کیا، صلیبی جنگیں دراصل مذہبی جنگیں تھیں جن کا آغاز 11 ویں صدی کے اواخر سے ہوا۔ یہ جنگیں دراصل 1095ء اور 1291ء کے درمیان لڑی گئیں۔ تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان جنگوں کا اہتمام یوروپی عیسائیوں نے لاطینی چرچ کی تائید و حمایت سے کیا جس کا مقصد دین اسلام کے بڑھتے اثر و رسوخ و دائرہ کو روکنا تھا کیونکہ اس وقت ساری دنیا میں اسلام بڑی تیزی سے پھیل رہا تھا اور اسلام کے ماننے والے بڑی تیزی کے ساتھ دنیا کے اہم علاقوں کو فتح کرتے جارہے تھے۔ فلسطین، شام، مصر میں اسلام کا بول بالا تھا۔ خاص طور پر ان ملکوں یا علاقوں میں اسلام کی توسیع کو ختم کرنے اس کے بڑھتے قدموں کو روکنے، مسلمانوں سے ان علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مشرقی بحیرہ روم کی مقدس زمین پر مسلمانوں کی حکمرانی ان کے تسلط کو ختم کرکے اسے دوبارہ اپنے قبضہ میں لینے کیلئے صلیبی جنگیں لڑی گئیں۔
جہاں تک صلیبی جنگوں کا سوال ہے، یہ جنگیں حضرت عیسٰی علیہ السلام کے 1,000 سال اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے 450 سال بعد لڑی گئیں۔ اللہ کے ان دونوں پیغمبر نے وحدانیت کی تعلیم دی، توحید کا درس دیا۔ دونوں ابراہیم علیہ السلام اور موزیس کی طرح بندگان خدا کو توحید کی تعلیم دی۔ مسلمانوں میں ابراہم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور موزیس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کہا جاتا ہے۔ چنانچہ یہودیت، عیسائیت اور اسلام ادیان ابراہیم کہلاتے ہیں۔ اس لئے صلیبی جنگوں کو حق بجانب قرار دینا ناقابل بیان ہے۔ ان جنگوں کے باوجود عیسائیت اور اسلام آج بھی باقی ہیں۔ اور اس کرۂ ارض پر دونوں مذاہب کے لاکھوں، کروڑوں ماننے والے موجود ہیں اور ان میں اکثریت روادار اور پرامن لوگوں کی ہے۔ یعنی مسلمانوں اور عیسائیوں کی اکثریت امن پسند ہے۔ کچھ جنگجو ہیں۔ جہاں تک یوروپ کا معاملہ ہے، یوروپ میں عیسائیوں کی اکثریت ہے جبکہ فلسطین، شام، مصر اور چند دوسرے علاقوں میں جہاں صلیبی جنگیں لڑی گئی تھیں،یہ بنیادی طور پر مسلم اکثریتی ملک ہیں۔اس کہانی کا اخلاقی درس یہ ہے کہ کوئی بھی مذہب یا مذہبی گروپ ایک دوسرے پر فتح حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی ایک دوسرے کو مٹا سکتا ہے۔

جہاد کیا ہے؟
پھر بھی لفظ ’’جہاد‘‘ دور زمانہ میں ہے۔ اسلام میں جہاد برٹانیکا کے مطابق ایک شاندار، قابل تحسین مقدس جدوجہد یا کوشش ہے۔ بنیادی طور پر جہاد کا مطلب وہ انسانی جدوجہد ہے جو نیکی کے فروغ اور بدی کے انسداد یا روک تھام کیلئے کی جاتی ہے، تاہم دور جدید میں یہ پرتشدد مہمات کا مترادف بن گیا ہے۔

لو جہاد
اب چلتے ہیں لو جہاد کی طرف ’’لو جہاد ایک ایسا عفریت ہے۔ دائیں بازو کے ہندو انتہا پسندوں نے نوجوان ہندو مردوں اور عورتوں کو دہشت زدہ کرنے کیلئے ایجاد کیا۔ اس طرح نارکوٹک جہاد ایک نیا عفریت ہے جس کی حال ہی میں ایجاد ہوئی ہے۔ مجھے اور لاکھوں ہندوستانیوں کو یہ جان کر بہت تکلیف ہوئی کہ پالا کے ایک بشپ بشپ جوزف کلارنگٹ اس کے موجد ہیں۔ جبکہ لفظ محبت (لو) اور نارکوٹکس (منشیات) حقیقی ہیں۔ ایسے میں لفظ جہاد کو محبت سے جوڑتا (ایک فطری انسانی جذبہ) اور منشیات (ہوش گم کرنے والی نشہ آور دوا) سے خراب سوچ کا پتہ چلتا ہے۔ ان کا ارادہ یا مقصد بالکل واضح ہے۔ ایک طرف ایک مذہب (ہندوازم یا عیسائیت) کے حامیوں اور دوسری طرف اسلام کے درمیان عدم اعتماد اور فرقہ وارانہ تنازعہ کو ہوا دینا ہے اور لوگوں میں یہ تاثر دیتا ہے کہ مسلمان وہ لوگ میں جو انتہا پسند ہیں۔ بہرحال ایک سکیولر ملک میں اس طرح کی جنونیت کو لازمی طور پر ختم کرنا چاہئے۔ چاہے اس جنونیت کا اظہار الفاظ میں ہو یا امتیازی سلوک کے ٹھیک ٹھیک طریقوں کے ذریعہ عملی طور پر ہو۔

کوئی شواہد نہیں
اس بات کے کوئی شواہد نہیں کہ ہندوستان میں اسلام نے توسیع پسندی کا مظاہرہ کیا ہو۔ حال ہی میں PEW سروے سے متعلق نتائج منظر عام پر آئے۔ اس سروے کو جاریہ سال جون میں شائع کیا گیا ہے۔ جس نے ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی کو لے کر کی جانے والی بکواس کا ایک طرح سے منہ توڑ جواب دیا ہے۔ مسلم آبادی کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں جو شکوک و شبہات پیدا کئے گئے تھے یا کئے جارہے تھے۔ انہیں دور کردیا۔ سروے میں بتایا گیا کہ ہندوستان کی مذہبی ترتیب 1951ء اور 2011ء کے درمیان منصفانہ طور پر مستحکم رہی۔ ہاں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب میں معمولی سے اضافہ ہوا اور اس کی وجہ نقل مکانی اور مسلم خواتین میں بارآوری کی شرح رہی۔ اگرچہ یہ 1992ء میں 4.4 تھی، بڑی تیزی سے گرکر سال 2015ء میں 2.6 ہوگئی۔ اس کا مطلب ہندوؤں اور دیگر گروپوں میں پائی جانے والی شرح بارآوری سے کچھ زیادہ پھر بھی 2050ء تک ہندوستان میں ہندوؤں کی آبادی 77% (1300 ملین رہے گی) PEW کے سروے میں جن لوگوں سے بات کی گئی یا انٹرویوز لئے گئے، ان میں سے 8.16 فیصد نے بتایا کہ وہ ہندو کی حیثیت سے بڑے ہوئے ہیں اور سردست 81.7 فیصد کی شناخت بطور ہندو ہوئی ہے۔ دوسری طرف 2.3 فیصد نے بتایا کہ وہ عیسائی کی حیثیت سے پرورش پائے۔ فی الوقت 2.6 کی شناخت عیسائی کے طور پر ہوئی۔ ان تمام حقائق سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بڑے پیمانے پر غیرمسلموں کے اسلام قبول کرنے کے بارے میں جو دعوے کئے جاتے ہیں، وہ صرف اور صرف جھوٹ ہیں۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ دائیں بازو کی ہندو انتہا پسند تنظیمیں بشپ آف پالا کی ان کے مخالف مسلم بیان کیلئے تائید و حمایت کررہی ہیں۔ دونوں ایک ’’دوسرے‘‘ مطلب مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ غیرعیسائی (خاص طور پر قبائیلی دلت اور ماہی گیروں) نے اپنا مذہب تبدیل کرتے ہوئے عیسائیت قبول کیا ہے جبکہ بے شمار غیرمسلموں کے دین اسلام قبول کرنے کے بارے میں کئے جانے والے دعوؤں و الزامات میں کوئی سچائی نہیں۔

میرے اسکول کا تجربہ
میں نے ایک ایسے اسکول سے تعلیم حاصل کی جو عیسائی مشنریز کے تحت چلایا جاتا تھا۔ اس اسکول میں طلبہ کی تعداد دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے دیگر طلبہ کی تعداد سے کہیں زیادہ تھی جبکہ عیسائی اور مسلم طلبہ کی تعداد بہت ہی کم تھی۔ طلبہ کی کثیر تعداد کو دیکھتے ہوئے ہر جماعت کو کئی سیکشنس میں تقسیم کیا گیا لیکن ایک کلاس لیڈر تھا جس کا انتخاب ہیڈ ماسٹر کوروپلا جیکب کیا کرتے تھے۔ میں نے اس اسکول میں کلاس VI سے لے کر دسویں جماعت یعنی پانچ برسوں تک تعلیم حاصل کی۔ اس دوران اے کے موسیٰ کلاس لیڈر تھے۔ وہ ایک خوش مزاج دوستانہ طبیعت کے حامل ایک اوسط طالب علم تھے۔ XI جماعت یعنی سال آخر میں کلاس لیڈر خودبخود School Pupil Leader بن جاتا ہے۔ اس کیلئے ہیڈماسٹر چاہتے تھے کہ ایک بلند قامت اور بااثر طالب علم کا انتخاب کہا جائے ایسے طالب علم کا جو اسکول کی تقاریب اور سالانہ یوم کی تقریب میں بڑی روانی کے ساتھ انگریزی بول سکے چنانچہ انہوں نے کس کا انتخاب کیا؟ غور سے سنئے اور پڑھئے! انہوں نے اس عہدہ کیلئے مسٹر ہارون محمد کا انتخاب کیا۔ اس انتخاب پر کسی نے بھی یقینا ہندو اور نہ ہی عیسائی طلبہ نے یہ سوچا کہ کچھ معمول سے ہٹ کر کیا گیا۔ اس کی وجہ ہم لفظ ’’خوشامدی‘‘ سے واقف ہی نہیں تھے۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ چیف منسٹر کیرالا پی وجین نے بشپ کی شرپسندانہ حرکت کے بارے میں پڑھا، مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ اسمبلی میں قائد اپوزیشن مسٹر وی ڈی ستھیشن نے چیف منسٹر کے اس بیان کی تائید کی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کی حکومت اس طرح کے جھوٹے اور بے بنیاد بیان دینے والوں کو نہیں بخشے گی۔
جو لوگ شرپسندانہ ذہنیت کے ساتھ یا شرارتاً نارکوٹک جہاد کے بارے میں بات کرتے ہیں، انہیں گجرات کی ایک بندرگاہ سے ہندوستان میں درآمد کی جانے والی 3,000 کیلوگرام ہیروئن (جوکہ 3 ٹن بنتی ہے) کی ضبطی کے واقعہ پر غور کرنا چاہئے۔ اس قدر کثیر مقدار میں ہیروئن کی ضبطی کی ہماری تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ میں پوری اتھاریٹی کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی بھی اس قدر کثیر مقدار میں ہیروئن درآمد کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ مرد؍ عورت (ایک جوڑا۔ جو غیرمسلم ہے اسے گرفتار کیا گیا) کو اعلیٰ سطح پر سرکاری سرپرستی حاصل نہ ہو۔ وزیراعظم اور وزیر داخلہ کو جہاد یا نارکوٹک کے بارے میں اظہار خیال کرنے کے ساتھ ساتھ گجرات بندرگاہ پر ضبط 3,000 کیلو ہیروئن کے بارے میں بھی تبصرہ کرنا چاہئے کیونکہ یہ داخلی سلامتی اور ملک کی سماجی ہم آہنگی کیلئے سنگین ثابت ہوسکتے ہیں۔