محمد ساجد ناصری
ہندوستان ایک وسیع، متنوع اور گوناگوں رنگوں سے بھرا ہوا ملک ہے۔ یہاں صدیوں سے مختلف مذاہب، تہذیبوں، زبانوں اور ثقافتوں کے ماننے والے لوگ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ رہتے آئے ہیں۔ یہی تنوع اس ملک کی اصل طاقت بھی ہے اور اس کے لئے ایک بڑا امتحان بھی۔ جمہوریت کی روح اسی بات میں پوشیدہ ہے کہ ہر شہری کو مساوی حقوق حاصل ہوں، ہر مذہب، ہر طبقہ اور ہر زبان کو عزت و احترام دیا جائے، اور کوئی فرد صرف اپنے مذہب یا ذات کی بنیاد پر محرومی یا تفریق کا شکار نہ ہو۔ لیکن بدقسمتی سے آزادی کے بعد سے ہندوستانی سیاست میں فرقہ واریت کا زہر بتدریج گھلتا چلا گیا۔ سیاست دانوں نے ووٹوں کے حصول کے لئے مذہب، سیاست اور برادری کے نام پر عوام کو تقسیم کیا۔ اس عمل نے نہ صرف قوم کی یکجہتی کو متاثر کیا بلکہ جمہوریت کی بنیادوں کو بھی کمزور کردیا۔ جب سیاست کا محور خدمت خلق کی بجائے مذہبی جذبات کو بھڑکانا بن جائے تو وہ سیاست نہیں بلکہ خود غرضی اور اقتدار کی جنگ بن جاتی ہے۔
آزادی کے فوراً بعد ہندوستان میں سیکولرازم کو آئینی بنیاد کے طور پر اختیار کیا گیا۔ دستور ہند میں یہ بات صاف طور پر درج ہے کہ ریاست کسی مذہب کی حمایتی نہیں ہوگی، بلکہ سب مذاہب کے ماننے والوں کو مساوی آزادی حاصل ہوگی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں نے اپنے مفاد کے لئے اس اُصول سے انحراف کیا۔ کبھی کسی مذہب کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی تو کبھی کسی دوسرے مذہب کو نشانہ بناکر سیاسی فائدہ حاصل کیا گیا۔ یہی وہ رویہ تھا جس نے ملک میں فرقہ وارانہ تناؤ کو بڑھایا، بڑے بڑے فسادات، دنگے اور نفرت کے بیج اسی سیاست کا نتیجہ ہیں۔
فرقہ وارانہ سیاست کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ عوام کو ان کے اصل مسائل سے دور کردیتی ہے۔ روزگار، تعلیم، صحت، غربت، بدعنوانی … یہ سب حقیقی مسائل پس پشت چلے جاتے ہیں۔ انتخابی جلسوں میں مذہبی نعروں کی گونج سنائی دیتی ہے اور عوام کو اپنے ہی ہم وطن دشمن کے طور پر دکھائے جاتے ہیں۔ اس ماحول میں عقل و شعور کی آواز دب جاتی ہے اور تعصب کی فضاء میں سچائی گم ہوجاتی ہے۔جب سیاست داں مذہب کو ووٹ بینک کی شکل دے دیتے ہیں تو پھر عوام کے درمیان دیواریں کھڑی ہونے لگتی ہیں۔ اس طرح جمہوریت کی روح جو مساوات اور بھائی چارے پر قائم ہے، مجروح ہوتی ہے۔فرقہ وارانہ سیاست کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ عالمی سطح پر ملک کی ساکھ کو متاثر کرتی ہے۔ ہندوستان کو ہمیشہ ایک روادار، سیکولر اور جمہوری ملک کے طور پر دنیا میں پہچانا گیا ہے لیکن جب یہاں فرقہ واریت اور مذہبی تشدد کے واقعات منظر عام پر آتے ہیں تو بین الاقوامی سطح پر جمہوریت کی ساکھ پر سوال اُٹھنے لگتے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کار، تعلیمی ادارے اور عالمی تنظیمیں بھی ایسی فضاء میں غیر یقینی محسوس کرتی ہیں۔ اس طرح فرقہ وارانہ سیاست نہ صرف داخلی استحکام بلکہ بیرونی اعتماد کو بھی متاثر کرتی ہے۔
آج کے دور میں میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے لیکن افسوس کہ بعض میڈیا ادارے بھی فرقہ وارانہ ایجنڈوں کا حصہ بن گئے ہیں۔ خبروں کی ترجیحات، تجزیوں کی سمت اور بحثوں کے موضوعات میں اکثر جھکاؤ محسوس ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا نے بھی نفرت کے بیانیے کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جھوٹی خبریں، افواہیں اور اشتعال انگیز بیانات تیزی سے عام ہوجاتے ہیں جن سے سماج میں بداعتمادی اور نفرت کا زہر پھیلتا ہے۔ ایسے حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام میں فکری بیداری پیدا کی جائے۔ تعلیم، شعور اور قومی یکجہتی کے پیغام کو عام کیا جائے۔ مذہب انسان کو اخلاق، محبت اور خدمت کا درس دیتا ہے، نفرت اور تقسیم کا نہیں۔ اگر مذہب کو سیاسی مفاد کے لئے استعمال کیا جائے تو اس کی روح مسخ ہوجاتی ہے۔
فرقہ وارانہ سیاست کے خاتمہ کیلئے سب سے پہلے عوام کو خود بیدار ہونا ہوگا۔ ووٹ کی طاقت جمہوریت کی سب سے بڑی قوت ہے اور جب عوام مذہب یا ذات کے نام پر نہیں بلکہ کارکردگی، ایمانداری اور خدمت کی بنیاد پر ووٹ دیں گے، تبھی حقیقی تبدیلی آئے گی۔ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ سماجی اور تعلیمی اداروں کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہئے۔ نوجوان نسل میں برداشت، رواداری اور ایک دوسرے کے احترام کا جذبہ پیدا کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔نوجوان نسل کو اس مسئلہ کی سنگینی کو سمجھنا چاہئے کیوں کہ وہی مستقبل کے معمار ہیں۔ اگر وہ مذہب، زبان یا ذات کی بنیاد پر نہیں بلکہ اخلاق، علم اور خدمت کے اُصولوں پر متحد ہوں تو کوئی طاقت ملک کو تقسیم نہیں کرسکتی۔ نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ سوشل میڈیا پر نفرت کے بیانیوں سے دور رہیں، تصدیق شدہ معلومات پر یقین کریں اور اپنے کردار سے ملک میں مثبت تبدیلی لانے کا عزم کریں۔
تعلیم کے میدان میں بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی تربیت دی جانی چاہئے۔ نصاب میں ایسے مضامین شامل ہوں جو رواداری، انصاف اور انسانی برابری کا درس دیں۔ اسکول اور کالج وہ مراکز ہیں جہاں آنے والی نسل کو یہ سکھایا جاسکتا ہے کہ اختلاف رائے دشمنی نہیں بلکہ ترقی کی علامت ہے۔ اگر تعلیمی نظام میں انسان دوستی کو بنیاد بنایا جائے تو فرقہ وارانہ نفرت خود بخود ختم ہوسکتی ہے۔اساتذہ، علماء، دانشور اور سماجی رہنما اگر اپنے اپنے دائرے میں اتحاد و یکجہتی کا پیغام عام کریں تو یہ فضاء بدل سکتی ہے۔ مدارس، مساجد، مندروں، گرجا گھروں اور اسکولوں، سب جگہ انسانیت، امن اور محبت کا پیغام دیا جائے تو ملک میں بھائی چارے کی خوشبو دوبارہ پھیل سکتی ہے۔
فرقہ وارانہ سیاست کسی بھی جمہوریت اور ملک کے لئے زہر قاتل ہے۔ یہ عوام کے درمیان نفرت، شک اور دشمنی کو جنم دیتی ہے اور قوم کی ترقی کی رفتار کو سست کردیتی ہے۔ ہندوستان کی جمہوریت تبھی مضبوط ہوگی جب یہاں کے شہری مذہب سے اوپر اُٹھ کر ایک ہندوستانی کی حیثیت سے سوچیں۔
ملک کی ترقی اس وقت ممکن ہے جب ہر شہری یہ محسوس کرے کہ وہ اس وطن میں برابری کا حصہ دار ہے اور اس کے حقوق محفوظ ہیں۔ سیاست دانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کے بجائے قومی مفاد کو ترجیح دیں۔ عوام کے مسائل، روزگار، تعلیم اور انصاف کی فراہمی ہی سیاست کا اصل مقصد ہونا چاہئے۔ اگر ہم نے فرقہ وارانہ سیاست کے خطرات کو نہ سمجھا تو یہ آگ سب کچھ جلاکر راکھ کردے گی۔ لیکن اگر ہم نے شعور، اتحاد اور محبت کے ذریعہ اسے روکا تو ہندوستان واقعی ایک ایسی جمہوریت بن سکتا ہے جہاں سب کے لئے مساوات، انصاف اور امن کا سورج طلوع ہو۔