مساجد اور دینی مدارس کا اہم رول، بازاروں اور تجارتی مقامات پر سیاسی تبصروں سے گریز کیا جائے،تشہیر کے بجائے عمل پر توجہ دی جائے
حیدرآباد۔/21 اپریل، ( سیاست نیوز) لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی اور فرقہ پرست طاقتوں کے غلبہ کا مقابلہ کرنے ملک گیر سطح پر دانشوروں اور ملت کا درد رکھنے والوں کی جانب سے شعور بیداری مہم کے مثبت نتائج دیکھے جارہے ہیں۔ لوک سبھا چناؤ کو عوامی مسائل کے بجائے فرقہ وارانہ ایجنڈہ تک محدود کرکے سنگھ پریوار ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے ایجنڈہ کی طرف پیش قدمی کررہا ہے ۔ مسلمانوں کی مذہبی اور سماجی شخصیتوں کے علاوہ ملک کے نامور جہد کاروں نے سیکولر ووٹ کی تقسیم روکنے کی مہم کے تحت ہندوستان کے مختلف شہروں کا دورہ کرکے عوام تک پیام پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ اسی مہم کا نتیجہ ہے کہ شمالی ہند کی کئی ریاستوں میں مسلمانوں نے لوک سبھا چناؤ میں سیکولر طاقتوں کے حق میں متحدہ رائے دہی کا فیصلہ کیا ہے اور اس مرتبہ امید کی جارہی ہے کہ مسلمانوں کی ووٹنگ کے تناسب میں اضافہ ہوگا۔ بی جے پی نے جنوبی ہند بالخصوص تلنگانہ پر توجہ مرکوز کی ہے کیونکہ تلنگانہ کو جنوب کا گیٹ وے کہا جاتا ہے۔ بی جے پی تلنگانہ کی 17 میں 10 لوک سبھا نشستوں پر کامیابی کیلئے منصوبہ بند لائحہ عمل پر کاربند ہے۔ پارٹی نے مودی حکومت کی کارکردگی سے زیادہ فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو ووٹ حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا ہے اور ہندو ووٹ بینک مستحکم کرنے کوشاں ہے۔ تلنگانہ بنیادی طور پر سیکولر ریاست ہے اور عوام نے کبھی بھی فرقہ پرست طاقتوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ لوک سبھا چناؤ کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے تلنگانہ کے سیکولر رائے دہندوں میں شعور بیداری مہم کا آغاز کیا گیا تاکہ بی جے پی کو کامیابی سے روکا جاسکے۔ بعض قومی شخصیتوں جن میں مذہبی شخصیتیں بھی شامل ہیں حیدرآباد پہنچ کر عوام سے خطاب میں لوک سبھا انتخابات کی اہمیت اور رائے دہی میں حصہ لینے کی افادیت سے واقف کرارہے ہیں۔ ملک میں فرقہ پرستی اور مظالم کے خلاف جدوجہد کرنے والے جہدکاروں اور سیول سوسائٹی کی تنظیموں نے تلنگانہ کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے کئی پروگرام منعقد کئے تاکہ عام رائے دہندوں کو انتخابی عمل میں شامل کرنے کی ترغیب دی جاسکے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ تلنگانہ اور دیگر ریاستوں کو کرناٹک ماڈل اختیار کرنا ہوگا تاکہ فرقہ پرست طاقتیں شعور بیداری مہم سے بے خبر رہیں۔ شعور بیداری کے سلسلہ میں عموما زیادہ تشہیر بھی نقصان کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ فرقہ پرست طاقتیں جوابی کارروائی میں سیکولر ووٹ کو متحد ہونے سے روکنے کی حکمت عملی پر عمل کرسکتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا کہ سوشیل میڈیا پلیٹ فارم کے زیادہ استعمال سے فائدہ کے ساتھ ساتھ نقصانات بھی ہوئے ہیں۔ ایسے وقت جبکہ مسلم اور سیکولر رائے دہندوں کو بی جے پی کے خلاف ووٹ دینے کیلئے متحرک کیا جارہا ہو تو ضرورت اس بات کی ہے کہ خاموش تحریک چلائی جائے اور شعور بیداری کے پیام کو واٹس ایپ، فیس بک، ٹوئیٹر یا کسی اور پلیٹ فارم پر شیئر کرنے کے بجائے سینہ بہ سینہ مہم زیادہ کارآمد ہوسکتی ہے۔ کرناٹک ماڈل کا تذکرہ اس لئے کیا گیا کیونکہ کرناٹک کے اسمبلی چناؤ میں سیکولر طاقتوں کی حکمت عملی سے بی جے پی اور سنگھ پریوار خواب غفلت کا شکار رہا اور مسلمانوں کی متحدہ رائے دہی کے نتیجہ میں بی جے پی اقتدار سے محروم ہوگئی۔ بتایا جاتا ہے کہ جہدکاروں اور مسلم تنظیموں نے بی جے پی حکومت کے مظالم کا خاتمہ کرنے کیلئے شور شرابہ اور تشہیری ہتھکنڈوں کے بجائے سینہ بہ سینہ مہم کو ترجیح دی تھی اور یہی حکمت عملی کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب کسی بھی منصوبہ یا حکمت عملی کو برسر عام کردیا جائے تو مخالفین اس کا توڑ تیارکرلیتے ہیں۔ کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں نے اس قدر احتیاط سے کام لیا تھا کہ کاروباری مراکز اور عوامی مقامات پر سیاسی گفتگو یا تبصروں سے گریز کیا گیا جس کے نتیجہ میں بی جے پی اور سنگھ پریوار کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ مسلمان متحدہ طور پر کانگریس کے حق میں ووٹ دیں گے اور گذشتہ کے مقابلہ مسلمانوں کی رائے دہی کے تناسب میں اضافہ ہوگا۔ تلنگانہ میں لوک سبھا چناؤ کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے اور 10 سے زائد حلقوں پر فیصلہ کن موقف رکھنے والے مسلم رائے دہندوں کو تشہیر، شورشرابہ یا نعرہ بازی کے بغیر خاموش حکمت عملی پر عمل کرنا ہوگا تاکہ بی جے پی کے بڑھتے قدم کو جنوبی ہند میں روکا جاسکے۔ بی جے پی کے تلنگانہ میں 4 سیٹنگ ارکان ہیں لیکن وہ جاریہ الیکشن میں مزید 6 نشستوں پر کامیابی کا عزم رکھتی ہے۔ تلنگانہ میں زیادہ تر شعور بیداری مہم سوشیل میڈیا پلیٹ فارم پر دکھائی دے رہی ہے جس میں قوم کے ذمہ داروں کے علاوہ دیگر افراد بھی اپنی رائے پیش کرتے ہوئے مخالفین کو چوکس کرنے کا کام کررہے ہیں۔ بی جے پی کے آئی ٹی سیل نے جوابی مہم کے طور پر بعض نام نہاد مسلم چہروں کا استعمال شروع کردیا ہے تاکہ عام مسلمانوں میں الجھن پیدا کرتے ہوئے ووٹ تقسیم کردیئے جائیں۔ جس طرح کرناٹک میں خاموش مہم نے اپنا اثر دکھایا ہے اسی طرح تلنگانہ میں بھی اگر مسلمان شعور کا مظاہرہ کریں تو بی جے پی کو موجودہ 4 نشستوں سے بھی کم تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ جہاں تک ووٹ کے استعمال کا تعلق ہے مسلم رائے دہندوں میں سینہ بہ سینہ یہ پیام دیا جائے کہ ہر لوک سبھا حلقہ میں فرقہ پرستوں کو شکست دینے کی اہلیت اور طاقت رکھنے والے امیدواروں کے حق میں اپنے قیمتی ووٹ کا استعمال کریں۔ خاموش مہم میں مساجد کے ائمہ اور خطیب اہم رول ادا کرسکتے ہیں جو روزانہ کسی ایک نماز کے بعد مصلیوں کو ووٹ کی اہمیت اور فرقہ پرست طاقتوں کے خطرہ سے واقف کراتے ہوئے ووٹنگ تناسب میں اضافہ کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ مذہبی اور سماجی اداروں کے علاوہ دینی مدارس بھی اس مہم سے وابستہ ہوکر تلنگانہ میں 13 فیصد مسلمانوں کی رائے دہی کو کم از کم 60 فیصد تک پہنچا دے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کا 10 نشستوں کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔ شرط اس بات کی ہے کہ شعور بیداری مہم کی اسی حد تک تشہیر ہو جتنی کہ اس کی ضرورت ہے۔ عام مسلمان بازاروں اور عوامی مقامات پر تبصروں سے گریز کریں اور 13 مئی کو ووٹ کے استعمال کے ذریعہ جواب دیں۔1