فلسطینیوں کی منتقلی، ٹرمپ کا مطالبہ عرب وزرائے خارجہ نے بھی مسترد کردیا

,

   

قاہرہ اجلاس میں فلسطین سے متعلق 7نکاتی ایجنڈے پر اتفاق ‘مصر اور قطر کی کوششوں کی ستائش

قاہرہ :عرب وزرائے خارجہ نے ہفتہ کو فلسطینیوں کی ان کی سرزمین سے منتقلی کو کسی بھی حالت میں مسترد کردیا۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے فلسطینیوں کو غزہ سے  اردن اور مصر منتقل کیے جانے پر زور دیا تھا۔ اس مطالبے کے خلاف عرب وزرائے خارجہ نے متفقہ موقف پیش کیا ہے۔قاہرہ اجلاس کے بعد ایک مشترکہ بیان میں مصر، اردن، سعودی عرب قطر، متحدہ عرب امارات، فلسطینی اتھارٹی اور عرب لیگ کے وزرائے خارجہ اور حکام نے کہا اس طرح کے اقدام سے خطہ میں استحکام کو خطرہ ہوگا ، تنازعات پھیل جائیں گے اور امن کے امکانات کو نقصان پہنچے گا۔میڈیاکے مطابق مصری دارالحکومت قاہرہ میں منعقدہ عرب مشاورتی اجلاس میں سعودی عرب کے وفد کی قیادت وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کی۔اجلاس میں غزہ کی پٹی میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کا خیر مقدم کیا گیا۔فلسطینی اتھارٹی کو مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی عوام کی سلامتی، خطے کے استحکام کے حوالے سے جامع انداز میں کام کرنے کے طریقہ کار پرتبادلہ خیال کیا گیا۔سعودی عرب اور فرانس کی سربراہی میں جون 2025 میں مسئلہ فلسطین اوردوریاستی حل کے لیے ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کو یقینی بنانے پر بھی بات چیت ہوئی۔مشاورتی اجلاس میں تنازعہ فلسطین اورغزہ کی تازہ ترین صورتحال اور جنگ بندی کو پائیدار بنانے کے علاوہ محفوظ طریقے سے پناہ گزینوں کی واپسی کے ساتھ امدادی کاموں کو تیز کرنے پر زوردیا گیا۔ مصر کی دعوت پر وزارئے خارجہ کے اجلاس میں فلسطین کے حوالے سے سات نکاتی ایجنڈے پر اتفاق کیا گیا۔اجلاس میں جنگ بندی کے حوالے سے مصر اور قطر کی کوششوں کو سراہا گیا۔ امریکہ کے اہم کردار کی بھی تعریف کی گئی۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے اشتراک سے دو ریاستی حل اور خطے کو تمام تنازعات سے صاف کرنے کے حوالے سے بھی امکانات کا جائزہ لیا گیا۔عرب وزارتی اجلاس میں مستقل بنیادوں پر جنگ بندی کی اہمیت پر زوردیتے ہوئے غزہ پٹی میں امدادی کی بھرپورطریقے سے ترسیل کو یقینی بنانے کے لیے تمام رکاوٹوں کو فوری ختم کرنے کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔غزہ پٹی سے اسرائیلی فورسز کے مکمل انخلا اور غزہ پٹی کو تقسیم کرنے کی کسی بھی کوشش کی نفی کرتے ہوئے اسے مکمل طورپر مسترد کیا گیا۔اس بات پر زور دیا گیا کہ’ فلسطینی اتھارٹی کو مکمل ذمہ داریاں سنبھالنے کی اجازت دی جائے۔‘اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین ’اونروا‘ کے کردار کو اہم قرار دیتے ہوئے اسے نظر انداز کرنے یا محدود کرنے کی کسی بھی کوشش کو واضح طورپر مسترد کیا گیا۔ اجلاس میں بین الاقوامی قانون کے تحت  فلسطینیوں کے جائز حقوق کی پاسداری کے لیے ان کے ساتھ مکمل یکجہتی و تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی۔ شرکا نے بین الاقوامی برادری خاص کر علاقائی طاقتوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زوردیا کہ ’وہ مسئلے کے دوریاستی حل کے نفاذ کو ہر صورت میں یقینی بنائیں تاکہ مشرق وسطی میں  کسی بھی طرح کی کشیدگی کو جڑ سے ختم کرتے ہوئے فلسطینی تنازعہ کو منصفانہ حل تک پہنچا جاسکے۔‘بین الاقوامی قراردادوں اور 4 جون 1947 کی سرحدوں کے مطابق دوریاستی حل کے نفاذ کیلئے بین الاقوامی اتحاد کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کی حمایت پر زوردیا گیا۔جس میں غزہ، بیت المقدس اور مغربی کنارے کے علاقے شامل ہوں جسے مکمل فلسطینی ریاست کے طور پر تسلیم کیاجائے۔