فلسطینیوں کے قتل اور اسرائیل کا ایران پر حملہ

   

مودی حکومت کی افسوسناک خاموشی

سونیا گاندھی
تیرہ جون 2025 کو عالمی برادری نے ایک بار پھر یکطرفہ انتہا پسندی کا مشاہدہ کیا ، جب صیہونی ریاست اسرائیل نے ایران پر ایک خطرناک ، تشویشناک اور غیر قانونی حملہ کیا جو ایران کی خود مختاری کے خلاف تھا ۔ کانگریس نے اسرائیل کی بمباری اور سر زمین پر چنندہ قتل و غارتگری کی شدید مذمت کی ۔ یہ بمباری اور حملہ دراصل ایک خطرناک تناؤ کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کے علاقائی اور عالمی سطح پر سنگین نتائج مرتب ہوسکتے ہیں ۔ اسرائیل نے جہاں ایران پر حملہ کرتے ہوئے اس کی خودمختاری کو چیلنج کیا ہے ، وہیں غزہ میں بھی ظالمانہ کارروائیاں کرتے ہوئے شہریوں کی زندگیوں کی بھی پرواہ نہیں کی اور شہریوں کی زندگیوں کے ساتھ ساتھ علاقائی استحکام کو بھی خطرہ میں ڈال دیا۔ اسرائیل کی ان کارروائیوں کے نتیجہ میں تنازعات کے وسعت اختیار کئے جانے کے پورے پورے امکانات پائے جاتے ہیں اور اس کے اقدامات سے نہ صرف علاقہ بلکہ دنیا بھر میں مزید تنا زعات کی تخم ریزی ہوگی۔ ایران پر اسرائیل نے ایک ایسے وقت حملہ کیا جبکہ ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کیلئے شروع کردہ سفارتی کوششیں کامیابی کی جانب رواں دواں تھی اور اس بات کے اشارے مل رہے تھے کہ یہ مسئلہ اپنی حل کی جانب تیزی سے گامزن ہے لیکن افسوس کہ اسرائیل کے ایران پر حملہ نے مذاکرات کے دروازہ بھی بند کردیئے ہیں۔ حالانکہ ایران اور امریکہ کے درمیان پانچ مرحلوں کی بات چیت مکمل ہوچکی تھی اور جون میں چھٹویں مرحلہ کی بات چیت ہونے والی تھی۔ حال ہی میں اس ضمن میں ہم مارچ 2025 کا حوالہ دے سکتے ہیں، جب امریکہ کی نیشنل انٹلیجنس کی ڈائرکٹر تلسی گبارڈ نے امریکی کانگریس کے روبرو بیان دیتے ہوئے پر زور انداز میں کہا تھا کہ ایران جوہری ہتھیاروں کے پروگرام پر عمل نہیں کر رہا ہے اور اس کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے اس کی بحالی کی کوئی اجازت نہیں دی ۔ یہ پروگرام 2003 میں معطل کیا گیا تھا ۔ (آیت اللہ خامنہ ای نے متعدد مرتبہ اس خیال کا اظہار کیا کہ ایران انسانیت کے لئے مہلک ہتھیار تیار نہیں کرے گا کیونکہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا) یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اسرائیل کی موجودہ قیادت خاص طور پر وزیراعظم بنجامن نتن یاہو کے تحت خدمات انجام دے رہی قیادت کا بدقسمتی سے امن کو خطرہ میں ڈالنے اور انتہا پسندی کو بڑھاوا دینے کا ایک طویل ریکارڈ رہا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ نتن یاہو کی حکومت مسلسل غیر قانونی یہودی آبادیاں بسا رہی ہے۔ اس کے علاوہ نتن یاہو کی حکومت نے انتہائی شدت پسند قوم پرست گروہوں سے اتحاد کیا ہے اور یہ اتحادی بھی فلسطین میں یہودی آبادیوں کی غیر قانونی تعمیر میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ساری دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ اسرائیل۔ فلسطین تنازعہ کے حل کے لئے دو ریاستی حل پیش کیا گیا لیکن اسرائیل نے اس میں بھی رکاوٹیں کھڑی کیں جس کے نتیجہ میں نہ صرف فلسطینی عوام مسلسل متاثر ہورہے ہیں بلکہ اس علاقہ کے زیادہ تر حصہ کو تنازعات نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ نتن یاہو نے نفرت کی آگ پھیلانے اور شعلوں کو بھڑکانے میں مدد کی اور یہ سلسلہ 1995 میں اس وقت کے وزیراعظم اسحاق رابن کے قتل کے ساتھ ہی مزید شدت اختیار کر گیا اور اس قتل کے بعد اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن کی جو پہل کی امید کی جارہی تھی ، وہ اپنے اختتام کو پہنچی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سارے معاملہ میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اسرائیل کی بھرپور تائید و حمایت کر رہے ہیں۔ حالانکہ ایک ایسا بھی وقت تھا جبکہ ٹرمپ جنگوں کے خلاف باتیں کیا کرتے تھے ۔ ان کا یہ کہنا ہوتا کہ امریکہ نے خود کو دنیا کے مختلف علاقوں میں ختم نہ ہونے والی جنگوں میں پھنسا دیا ہے ۔ وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ اپنی حکومت میں ایسا ہونے نہیں دیں گے لیکن اب ان کی قیادت میں امریکہ مختلف جنگی میدانوں میں گود پڑ رہا ہے ۔ ان کا خود یہ بھی کہنا تھا کہ ہم نے عراق میں جھوٹ کی بنیاد پر کارروائیاں کیں اور دنیا کو یہ بتایا کہ عراق بڑے پیمانہ پر عام تباہی کے ہتھیار رکھتا ہے۔ اس کا نتیجہ ایک بھیانک جنگ کی شکل میں نکلا اور امریکہ کو مالی نقصانات برداشت کرنے پڑے۔ ٹرمپ نے یہاں تک کہا تھا کہ وہ امریکہ کی ختم نہ ہونے والی جنگوں اور فوجی و صنعتی اتحاد کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہی ٹرمپ انہی تباہ کن پالیسیوں کی تائید و حمایت کر رہے ہیں اور جنگوں کے ایک بڑے حامی بن گئے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مسٹر ٹرمپ 17 جون کو اپنی ہی انٹلجنس سربراہ کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے پر زور انداز میں کہا کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کے بالکل قریب تھی جبکہ آج دنیا کی جو صورتحال ہے وہ تباہ کن ہے اور ایسے میں دنیا ایک ایسے لیڈر کی توقع کرتی ہے اور اسے ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو زمینی حقائق کو سمجھے اور جنگ و جدال کی بجائے تنازعات کے حل کیلئے سفارتی طریقہ کار اختیار کرے نہ کہ طاقت اور جھوٹے بیانات کیلئے اسرائیل خود ایک جوہری طاقتیں اور افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس پر عالمی سطح پر کوئی روک ٹوک اور پابندیاں عائد نہیں کی گئی جبکہ ایران نے عالمی معاہدات کے تحت سخت ترین پابندیوں اور نگرانی کو قبول کیا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایران کے ساتھ پانچ بڑی طاقتوں P-5 نے ایک جوہری معاہدہ کیا تھا لیکن 2018 میں امریکہ نے یکطرفہ طور پر اس معاہدہ سے خود کو دور کرلیا۔ اس طرح وہ سفارتی کوششوں کو ترک کرنے کی بدترین مثال ہے۔ جہاں تک اسرائیل کا سوال ہے وہ نہ صرف ایک جوہری طاقت ہے بلکہ اپنے پڑوسی ملکوں پر حملوں اور جارحیت ایک طویل ریکارڈ رکھتا ہے۔ اس کے برعکس ایران جوہری عدم پھیلاؤ معاہدہ کا ہنوز ایک دستخط کنندہ ہے اور اس نے 2015 کے مشترکہ جامع لائحہ عمل کے تحت پابندیوں کے ضمن میں راحت دیئے جانے پر یورانیم کی افزودگی کو کم سے کم کرنے اور اس کی حد مقرر کرنے پر رضامندی سے اتفاق کیا تھا ۔ اس معاہدہ کی اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان نے تائید و حمایت بھی کی ۔ ساتھ ہی جرمنی اور یوروپی یونین نے بھی اس کی تصدیق کی تھی لیکن بدقسمتی سے 2018 میں امریکہ نے ہی خود کو اس معاہدہ سے باہر نکال لیا۔ اس طرح علاقہ کا استحکام مجہول ہوگیا۔ نتیجہ میں اس کے منفی اثرات ہندوستان پر بھی مرتب ہوگئے ۔ جیسے ہی ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کی گئیں ، اسے فوجی لحاظ سے اور اقتصادی لحاظ سے اہمیت کے حامل پراجکٹس کو آگے بڑھانے کی ہندوستانی صلاحیت بھی شدید متاثر ہوئی جس میں انٹرنیشنل نارتھ ، ساؤتھ ، ٹرانسپورٹ کوریڈر اور چابھار بندرگاہ کے فروغ سے متعلق پراجکٹ بھی شامل ہیں۔ یہ ایسے پراجکٹس تھے جس کے ذریعہ وسطی ایشیا اور افغانستان تک زیادہ راست رسائی کو یقینی بنایا جاسکتا تھا ۔ ایران کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ہمارا دوست ہے اور تاریخی طور پر ایران نے کئی بار ہندوستان کا ساتھ دیا ۔ خاص طور پر 1994 میں اقوام متحدہ میں ایران نے کشمیر پر ہمارے ملک کے موقف کی تائید و حمایت کی تھی۔ ایران کا موجودہ نظام یا حکومت سابق شاہی حکومت کے بہ نسبت ہندوستان کہیں زیادہ تعاون و اشتراک کرنے والا ثابت ہوا۔ ہندوستان اور ایران ایک طویل دوستی کی تاریخ رکھتے ہیں جس کا ثبوت مذکورہ سطور میں ہم نے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پر ہندوستان کی موقف کی ایرانی تائید کے طور پر پیش کیا کیونکہ اس وقت اقوام متحدہ کے کمیشن برائے حقوق انسانی نے ہندوستان پر تنقید کرنے والی ایک قرارداد پیش کی جارہی تھی اور ایران کی تائید سے وہ قرارداد روک دی گئی ۔ ہندوستان اور اسرائیل نے بھی اپنے تعلقات میں استحکام لایا ، انہیں وسعت دی لیکن ہندوستان پر ایک اخلاقی اور سفارتی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ماضی کی طرح مغربی ایشیا میں بحالی امن کیلئے قائدانہ کردار ادا کریں۔ اب جبکہ اسرائیل نے ایران کے خلاف جو کارروائیاں انجام دی ہیں اس معاملہ میں اسے طاقتور مغربی ممالک کی پوری تائید و حمایت حاصل ہے جبکہ انڈین نیشنل کانگریس نے 7 اکتوبر 2003 کو اسرائیل پر حماس کے خوفناک حملہ کی واضح مذمت کی ہے لیکن ہم ایسے وقت بھی خاموش نہیں بیٹھ سکتے ، جب 55 ہزار سے زائد فلسطینی اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے کئی خاندانوں کا مکمل صفایا ہوگیا ، بستیاں اجڑ گئیں ، اسپتال زمین دوز کردیئے گئے اور غزہ بھوک و افلاس کے دلدل میں پھنسادیا گیا۔ اب بھی فلسطینیوں کا قتل جاری ہے جبکہ ان کی مشکلات کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ موجودہ صورتحال میں ہندوستان نے جو موقف ا ختیار کیا ہے ، وہ افسوسناک ہے ۔ انسانیت کی تباہی و بربادی پر نریندر مودی حکومت نے ہندوستان کی ماضی میں اختیار کردہ پالیسیوں سے انحراف کیا ہے اور انہیں فراموش کردیا۔ ہندوستان نے اصولی طور پر مسئلہ فلسطین کے دو مملکتی حل سے اتفاق کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ اسرائیل اور ایک آزاد فلسطینی ریاست ایک دوسرے کے بازو پرامن بقائے باہم کے اصول پر قائم رہیں لیکن غزہ کی تباہی پر دہلی کی خاموشی اور اب ایران پر بلا اشتعال حملوں پر اختیار کردہ موقف یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم اپنے اخلاقی اور سفارتی روایات سے انحراف کرچکے ہیں۔