فلسطینی قیدیوں کے ساتھ اسرائیل کا بدترین سلوک

   

امجد خان
غزہ میں فلسطینیوں پر اسرایلی درندگی کا سلسلہ جاری ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل۔ فلسطین جنگ کا آغاز ہوا جس میں اب تک 38000 سے زائد فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا ہے جن میں ان فلسطینی شہیدوں کو شمار نہیں کیا گیا جو ہنوز اسرائیل کے ہاتھوں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل عمارتوں تلے دبے ہوئے ہیں۔ ایسے شہدا کی تعداد 8 تا 12 ہزار بتائی جاتی ہے۔ اسرائیل کی درندگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے فضائی و زمینی حملوں میں 80 ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے ہیں۔ یہ بھی رپورٹس ہیں کہ اسرائیلی حملوں میں 8000 سے زائد فلسطینی طلبہ جاں بحق ہوئے ہیں۔ شہدا میں خواتین اور بچوں کی اکثریت ہے جس میں شیر خوار فلسطینی بچے بھی شامل ہیں۔ ایسے بے شمار خاندان ہیں جن کا مکمل طور پر صفایا ہوگیا ہے۔ غزہ کی 23 لاکھ آبادی میں سے 19 لاکھ آبادی بے گھر ہوگئی ہے۔ غزہ کے اسپتالوں میں سے اکثر ہاسپٹلس کو اسرائیلی فورس نے زمین دوز کردیا ہے۔ ساتھ ہی اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیز کی عمارتوں کو بھی تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ الجزیرہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 7 اکتوبر سے اب تک سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 38011 فلسطینی شہید اور 87,445 زخمی ہوئے۔ مگر افسوس کے اس طرح کی تباہی و بربادی کے باوجود عالمی برادری بالخصوص عالمی ادارے بڑی بے بسی، بے حسی اور بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسانیت کو شرمسار کررہے ہیں جبکہ بار بار یہی کہا جارہا ہے کہ جنگ بندی سے تمام فریقین نے اتفاق کرلیا ہے لیکن ساری دنیا دیکھ رہی ہیکہ اب تک جنگ بندی نہیں ہوسکی۔ الجزیرہ کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہیکہ اسرائیلی عہدہ دار غزہ میں جنگ بندی سے متعلق کافی پرامید ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ DAVID BARNEA ایک خصوصی وفد کے ساتھ دوحہ پہنچے اور کہا جارہا ہے کہ اسرائیلی وفد قطری ثالث کاروں سے ملاقات کے بعد واپس بھی آگیا ہے یہ وفد اگلے ہفتہ دوبارہ قطر جائے گا۔ (سطور پڑھنے تک یہ ملاقات ہوچکی ہوگی)۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ گوانتاناموبے جیسے خطرناک عقوبت خانہ میں قید و بند کی زندگی گذارنے والے منصور عدیفی نے ایک مضمون لکھا ہے جس میں انہوں نے پرزور انداز میں کہا کہ اسرائیل کی sde Teiman جیل میں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ بدترین اور شرمناک سلوک روا رکھا گیا اور یہ جیل گوانتاناموبے سے بھی خطرناک ہے جہاں عالمی قوانین کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ آپ کو بتادیں کہ منصور عدیفی زائد از دس برسوں تک گونتے ناموبے عقوبت خانہ میں قید و بند کی زندگی ذارچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہیکہ مذکورہ جیل میں فلسطینی قیدیوں کو بناء کسی الزام کے رکھا جاتا ہے۔ انہیں قانونی طور پر نمائندگی سے محروم رکھا گیا۔ ایک WHSTLE BLOWER کے حوالے سے انہوں نے مضمون میں دعویٰ کیا کہ اس جیل میں قیدیوں کو مسلسل ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں رکھا جاتا ہے نتیجہ میں عام طور پر ان کے ہاتھ اور پیر زخمی ہو جاتے ہیں اور پھر ان کے ہاتھ پیر جسم سے علیحدہ کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ اس طرح اسی بہانے سے فلسطینی قیدیوں کے ہاتھ پیر کاٹ دیئے جاتے ہیں (حالیہ عرصہ کے دوران ایک رپورٹ منظر عام پر آئی جس میں فلسطینی قیدیوں کے حوالے سے بتایا گیا کہ اسرائیلی جیلوں میں ان کے ساتھ شرمناک سلوک کیا جاتا ہے یہاں تک کہ جسمانی اذیتیں دینے کے دوران ان کے نازک اعضاء کو بھی نشانہ بنایا گیا)۔ حال ہی میں الشفاء کے ڈائرکٹر محمد ابو سلیمیہ کی چند دوسرے قیدیوں کے ساتھ رہائی عمل میں آئی۔ انہوں نے اس بات کا انکشاف کیا کہ جن فلسطینی قیدیوں کو پوچھ تاچھ کے لئے گرفتار کرکے جیلوں میں بند کیا جاتا ہے۔ پوچھ گچھ کے دوران ان میں سے اکثر قیدیوں کو قتل کردیا جاتا ہے یہی نہیں انہیں دن رات اذیتیں دی جاتی ہیں۔ خود ذاکر محمد ابو سلیمیہ پر بھی اسرائیلی فورس نے تشدد کرتے ہوئے کئی بار زخمی کردیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیلی فورسس کے تشدد میں ان کے سر پر گہرے زخم آئے۔ اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں کو بنیادی سہولتیں بھی حاصل نہیں ہیں۔ ڈاکٹر محمد ابو سلیمیہ کے مطابق اسرائیلی ڈاکٹرس اور نرسیس بھی عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے فلسطینی قیدیوں پر تشدد کرتے ہیں۔ انہوں نے اب یہ مطالبہ کیا ہے کہ قیدیوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کی جائے ان کے انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے۔ جہاں تک اسرائیلی فورسس کا سوال ہے اس کے ظلم جبر پر بے شک ساری دنیا برہم ہے لیکن اس کے خلاف کارروائی سے گریز کررہی ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے ایک تفتیش کار کرس سیڈوئی کا بیان منظم عام پر آیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو یہ بات بار بار کہتے ہیں کہ اسرائیلی فوج دنیا کی سب سے زیادہ خطرناک اخلاقی فوج ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو اسرائیلی فوج دنیا کی سب سے مجرمانہ فوج ہے۔ ایک بات ضرور ہیکہ اسرائیلی جیلوں میں ایسے بے شمار قیدی ہیں جنہیں بناء کسی الزام کے گرفتار کیا گیا۔ منصور عدیفی اپنے مضمون میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ظالمانہ سلوک سے گونتوناموبے جیل کی یادیں تازہ ہوگئیں جہاں انہیں 14 برسوں تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑی جب انہیں وہاں منتقل کیا گیا تب پتہ نہیں تھا کہ انہیں کب چھوڑا جائے گا۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ آخر کس جرم میں ان کی گرفتاری عمل میں آئی۔ واضح رہے کہ اسرائیل ایک سوچے سمجھے منصوبہ اور سازش کے تحت فلسطینیوں کا قتل عام کررہا ہے۔ ان کے بچوں کی نسل کشی میں مصروف ہے لیکن امریکہ اور اس کے حلیف اسرائیل کی درندگی اس کی شیطانیت کو نسل کشی اور قتل عام تسلیم کرنے سے انکار کررہا ہے۔ بہرحال اب دیکھنا یہ ہیکہ اسرائیل فلسطینیوں کو کب تک ظلم و جبر کا نشانہ بناتا رہے گا اور فلسطینی کب تک اس کا ظلم سہتے رہیں گے۔ اسرائیل فی الوقت عالمی سطح پر ذلیل و خوار ہو رہا ہے لیکن پتہ نہیں اس کے حلیف ملکوں کو اس کا احساس کیوں نہیں ہو رہا ہے۔ ؟