قبلہ اول بیت المقدس کی حفاظت امت مسلمہ کی اولین ذمہ داری

   

شاہی مسجد باغ عامہ میں مولانا ڈاکٹر احسن بن محمد الحمومی کا خطاب

  حیدرآباد، 15 اکتوبر (راست) مولانا ڈاکٹر احسن بن محمد الحمومی امام و خطیب شاہی مسجد باغ عامہ نے کہا کہ مسجد الحرام اور مسجد نبویؐ کے بعد مسلمانوں کیلئے بیت المقدس تیسرا سب سے عظیم اور مقدس مقام ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والسلام نے فرمایا کہ ثواب کی نیت سے تین جگہ (کعبۃ اللہ، مسجد نبویؐ اور مسجد اقصیٰ) کا سفرکرو۔ ایک حدیث میں حضرت محمدؐ نے فرمایاکہ جو جنت کا کوئی مقام دیکھنا چاہتا ہے تو بیت المقدس کا نظارہ کرے۔ بیت المقدس، جنت الفردوس ہے۔ حضوراکرم ؐ نے سولہ مہینوں تک قبلہ اول بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کی۔ قبلہ اول بیت المقدس کی حفاظت امت مسلمہ کی اولین ذمہ داری ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان گذشتہ کئی برسوں سے بیت المقدس کے سلسلے میں گویا غافل تھے، لیکن اللہ نے فلسطینی نوجوانوں، بزرگ، خواتین اور بچوں کو یہ جرات، ہمت اور طاقت عطا کی۔ وہ بیت المقدس کی حفاظت ہی کیلئے پیدا ہوتے ہیں۔ اسی شوق میں ان کا انتقال ہوتا ہے۔ حضورؐ نے فرمایاکہ میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا ہوگا، جو مسلسل باطل کا مقابلہ کررہا ہوگا۔ بیت المقدس چند سال یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے یادگار رہا لیکن مسلمانوں کیلئے یہ شروع دن سے مقدس ہے۔ یہودیوں کا تعلق حضرت اسحاق ؑ کے فرزند حضرت یعقوبؑ سے ہے۔ حضرت یعقوبؑ کے بارہ فرزندان کے بارہ قبیلے تھے، اسی سے یہودیوں کا تعلق ہے۔ حضرت یعقوبؑ کو اسرائیل بھی کہا جاتا تھا۔ ان کے ایک فرزند کو یہودا اور ان کے ماننے والوں کو یہودی کہا جاتا ہے۔ اللہ نے بنی اسرائیل میں کئی انبیا کو مبعوث کیا۔ صرف یہودی ایک ایسی قوم ہے، جس نے انبیا کی نافرمانی، بے عزتی اور انھیں قتل کیا۔ یہودیوں نے سابقہ مذہبی صحائف میں رد و بدل بھی کیا۔ اسی وجہ سے انھیں دردناک عذاب دیا گیا۔ انھیں بندر اور خنزیر تک بنا دیا گیا۔ حضرت عیسی ؑکو بھی یہود نے پھانسی پر لٹکانے کی کوشش کی۔ اللہ نے قوم یہود کی قباحت کو قرآن میں کئی جگہ واضح کیا۔ یہودیوں نے حضرت محمدؐ کے خلاف بھی ہر ممکن کوشش کی کہ انھیں قتل کردیں۔ حضورؐ کے بچپن اور سفر شام کے دوران قتل کی سازش کی گئی۔ مکی اور مدنی دور میں بھی یہودیوں نے حضورؐ کے خلاف لگاتار کوشش کی۔ یہاں تک کہ یہودیوں نے حضورؐ کو زہر دینے کی بھی کوشش کی، آخر میں حضورؐ نے انھیں مدینہ سے شہر بدر کیا۔ اس کے بعد سے وہ روئے زمین پر در بدر بھٹکتے رہے۔مولانا احسن نے فرمایا کہ حضرت عمرؓنے اپنے دور خلافت میں بیت المقدس کو عیسائیوں سے فتح کیا۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ اور حضرت عمر ابن العاضؓ بیت المقدس فتح کرنے گئے تو عیسائیوں نے کہا کہ ہم اس کی چابیاں پر امن طریقہ سے خلیفۃ المسلمین کے ہاتھ میں دینے کیلئے تیار ہیں۔ حضرت عمرؓ ،حضرت علیؓ کو اس وقت اپنا جانشین بنا کر اونٹ پر بیت المقدس کیلئے روانہ ہوے۔ حضرت عمر ؓنے خادم سے کہا کہ دور کا فاصلہ ہے، آپ نکیل پکڑیں تو میں سوار ہونگا اور آپ سوار ہونگے تو میں نکیل پکڑوں گا۔ مسلمان بیت المقدس کے قریب پہنچنے کے بعد تر و تازہ ہو کر تیار ہونے لگے۔ بیت المقدس کے بالکل قریب حضرت عمرؓ نکیل پکڑے ہوئے تھے اور خادم سوار تھا، یہ منظر دیکھ کر بیت المقدس کے عیسائی الجھن میں تھے کہ شائد سوار ہی خلیفۃ المسلمین ہونگے۔ لیکن ایک اہل کتاب نے سب کو بتایا کہ جو نکیل پڑے ہوے ہیں، وہ خلیفۃ المسلمین ہیں۔ بیت المقدس کی چابی حضرت عمرؓ کو سونپی گئی، اسی وقت حضرت عمرؓ نے ایک معاہدہ کیا کہ بیت المقدس میں مسلمان اور عیسائی ہی رہیں گے، یہودیوں کو یہاں رہنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس معاہدہ پر صلاح الدین ایوبی اور ترکی میں خلافت عثمانیہ کے خاتمہ تک عمل ہوتا رہا۔ اس کے بعد برطانیہ نے عربوں کے ساتھ زبردستی کرکے یہودیوں کوبیت المقدس کے اطراف بسایا۔ ہٹلر نے یہودیوں کے نسلی صفایا کے دوران کہا تھا کہ میں نے چند یہودیوں کو اس لیے چھوڑ اکہ بعد کی قوموں کو یہودیوں کی کارستانی کے بارے میں معلوم ہوسکے۔