قرض اور اراضی کی فروخت پر تلنگانہ حکومت کا انحصار: محمد علی شبیر

   

حقیقت پر مبنی بجٹ تیار کرنے کا مطالبہ،فلاحی اسکیمات متاثر نہ ہوں

حیدرآباد۔ سابق اپوزیشن لیڈر محمد علی شبیر نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ تبدیل شدہ صورتحال میں مالیاتی سال 2021-22 کے نظر ثانی شدہ بجٹ عوام میں پیش کرے اور اسے قابل عمل اور حقیقت پر مبنی بنایا جائے۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ وزیر فینانس ہریش راؤ نے 2021-22 کیلئے 18 مارچ کو اسمبلی میں 2.31 لاکھ کروڑ کا بجٹ پیش کیا تھا۔ بجٹ کی پیشکشی کے موقع پر کورونا کی صورتحال اور سرکاری خزانہ کی آمدنی میں کمی جیسی صورتحال کو نظرانداز کردیا گیا۔ جاریہ مالیاتی سال کا پہلا سہ ماہی ختم ہونے کو ہے اور ریاست کا خزانہ مکمل خالی ہے۔ ریاستی حکومت قرض کے حصول اور اراضیات کی فروخت کے ذریعہ ملازمین کی تنخواہیں، پنشن، سبسیڈی اور دیگر اخراجات کی تکمیل کی تیاری کرچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپریل 2021 میں حکومت کو محض 1925 کروڑ کی آمدنی ہوئی جو حکومت کے نشانہ کے تحت صرف 4.24 فیصد ہے۔ لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں مئی اور جون کے دوران بھی ریاست کی آمدنی میں بھاری کمی واقع ہوئی ہے۔ ماہرین نے اکٹوبر تک کورونا کی تیسری لہر کی پیش قیاسی کی ہے جس کے نتیجہ میں ریاست کی معیشت کی بحالی فوری طور پر ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو چاہیئے کہ وہ ماہرین معاشیات اور عہدیداروں کے ساتھ مشاورت کے ذریعہ فوری طور پر نظرثانی شدہ بجٹ تیار کریں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی آمدنی کو پیش نظر رکھتے ہوئے حقائق پر مبنی بجٹ تیار کیا جائے تاکہ عوام کی بھلائی سے متعلق اسکیمات متاثر نہ ہوسکیں۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ تلنگانہ ریاست 5 لاکھ کروڑ کی مقروض ہوچکی ہے۔ حکومت نے بھاری سود پر قرض حاصل کرلیا ہے۔ قرض کے سود کے طور پر 17584 کروڑ ادا کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے چیف منسٹر سے مطالبہ کیا کہ ریاست کی معاشی صورتحال پر وائیٹ پیپر جاری کرے جس میں آمدنی اور قرض کی وضاحت کی جائے۔ چیف منسٹر کو اس بات کی وضاحت کرنی چاہیئے کہ حاصل کردہ قرض کہاں اور کس طرح خرچ کیا گیا اور قرض کی ادائیگی کس طرح کی جائے گی۔