حیدرآباد: کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر جو لاک ڈاؤن کیا گیا ہے اس وجہ سے جہاں زندگی کے تمام شعبے متاثر ہوئے ہیں وہیں تعلیم کا شعبہ زد میں آگیا ہے۔ اسکول جانے والے کڑوڑوں بچوں کی تعلیم پر اثر پڑا ہے۔ امتحانات کا شیڈول بھی تبدیل ہوگیا ہے۔ ہماری ریاست خصوصا راجدھانی حیدرآباد میں ہزاروں اسکول تعلیمی خدمات انجام دے رہے ہیں اور لاک ڈاؤن کے باعث ان اسکولوں کی کارکردگی اور بچوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی ہے، عین امتحان کے اوقات میں جب تعلیمی سال ختم ہونے کو ہے لاک ڈاؤن کے باعث سارا نظام اتھل پتھل ہوگیا ہے۔
اسکولوں کی آمدنی جو فیس اور امتحانی فیس کی شکل میں وصول ہوا کرتی ہے وہ رک گئی ہے، جس کے نتیجے میں اسکولی نظام پریشانی کا شکار ہے، ان پر بلڈنگ کے کرائے سے لے کر اسٹاف کی تنخواہ اور بلوں کی ادائیگی کا بوجھ پڑ گیا ہے جس کی بھر پائی وہ بچوں کی فیس سے کیا کرتے ہیں۔
کارپوریٹ اسکولوں کو فیس کی اصولی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ کہ ان اسکولوں میں فیس کی وصولی کا الگ ہی نظام ہے، اور تماموں کو اسکی پابندی کرنی پڑتی ہے ورنہ اختیار ہے کہ انہیں اسکول سے نکالا جا سکتا ہے، مگر دوسرے خانگی اسکولوں میں ایسا کچھ کہا نہیں جاسکتا، انکے اسکولوں کی فیس گھر والوں پر ہوتی ہے کہ وہ جب چاہے ادا کریں، اور اسکے لیے ٹال مٹول کرتے رہتے ہیں، بعض والدین تو فیس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ وہ دوسرے امور میں فراخدلی سے خرچ کرتے ہیں۔
حکومت کی جانب سے اچانک لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد بعض حلقوں سے یہ آواز اٹھائی جا رہی ہے کہ خانگی اصولوں میں فیس کی وصولی نہ کی جاۓ اور اس سلسلے میں احکامات جاری کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، شیخ پیٹ منڈل کے خانگی اسکولوں کے بعض نمائندوں نے کہا ہے کہ جو حلقہ فیس معاف کرنے کی بات کررہے ہیں انہیں سماجی ذمہ داری کا احساس نہیں ہے ایک تو خود فیس ادا کرنا نہیں چاہتے اور دوسروں کو بھی ادا کرنے سے روک رہے ہیں، ان کے بچے زیور تعلیم میں ملبوس ہو کر خود انکے لیے اثاثہ بنیں گے، اگر حکومت کوئی ہدایات جاری کرتی ہے تو انکو چاہیے کہ یاتو اسکولوں کو گرانٹ جاری کریں یا تمام اسکولوں کے لائٹ وغیرہ کے بل معاف کریں، اگر کرایہ کی عمارت ہے تو اسکا کرایہ حکومت دے، اور اگر ذاتی عمارت ہے تو اسکا جائداد کا ٹیکس معاف کرے، لاک ڈاؤن کا خمیازہ خانگی اسکول کیوں بھگتے،اسکے علاوہ ان اسکولوں میں جون کے مہینے سے مارچ کے وسط تک تعلیم ہوئی ہے اور ان مہینوں کی فیس ادائیگی تو لازم ہے، مگر کئی والدین بچوں پر توجہ نہیں دیتے جس کی وجہ سے انتظامیہ پر زبردست بوجھ پڑتا ہے، والدین اور طلباء کو اس پر غور کرنا چاہیے۔