لبنان بحران میں شدت ، 4 وزراء مستعفی

,

   

وزیراعظم کا نیا معاشی منصوبہ،اتوار کو بھی لبنان کی سڑکوں پر عوام کے شدید احتجاجی مظاہرے
بیروت ۔ /20 اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام) لبنان میں بحران شدت اختیارکررہا ہے ۔ حکومت کی اتحادی پارٹی القوات البنانیہ کے چار وزراء نے استعفیٰ دیدیا ہے ۔ پارٹی کے سربراہ سمیر جعجع نے کہا کہ لبنانی حکومت ملک کو بچانے والے اقدامات سے قاصر ہے ۔ لبنان کو بحران سے نکالنا ہے ۔ اسی دوران لبنانی وزیراعظم سعد الحریری نے ملک میں گذشتہ چار روز سے جاری احتجاجی مظاہروں پر قابو پانے کے لیے اپنا نیا اقتصادی منصوبہ پیش کیا ہے اور عوامی مطالبات کے پیش نظر انھوں نے بعض نئے اقدامات متعارف کرائے ہیں۔دارالحکومت بیروت میں اتوار کو ہزاروں افراد ملک کو درپیش بد تراقتصادی بحران اور حکومت کی ناکام پالیسیوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔مظاہرین نے وزیراعظم سعد الحریری کی گذشتہ ہفتے پیش کردہ ٹیکس اصلاحات کو مسترد کردیا تھا جس کے بعد آج انھوں نے ملک کے مختلف سیاسی بلاکوں کے نمایندے کے سامنے نئی معاشی اصلاحات پیش کی ہیں۔ان مجوزہ اصلاحات کے تحت موجودہ اور سابق وزراء کی تن خواہوں میں پچاس فی صد کٹوتی کی جائے گی۔بنکوں اور بیمہ کمپنیوں پر پچیس فی صد ٹیکس نافذ کیا جائے گا، ججوں اور سرکاری افسروں کی تن خواہیں موجودہ سطح پر برقرار رہیں گی اور آرمی اور سکیورٹی فورسز کی پینشن پر کی جانے والی تمام کٹوتیوں کو ختم کیا جارہا ہے۔العربیہ کو ملنے والی دستاویز کے مطابق مجوزہ اصلاحات کے تحت متعدد سرکاری کونسلیں اور وزارتیں ختم کی جارہی ہیں۔ان میں وزارت اطلاعات بھی شامل ہے۔سعد الحریری نے یہ اصلاحات پیش کرنے سے دو روز قبل جمعہ کو اپنی حکومت میں شامل شراکت داروں سے کہا تھا کہ وہ آیندہ بہتر گھنٹے میں مجوزہ اصلاحات کے بارے میں سنجیدگی کا اظہار کریں ، ورنہ وہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کریں گے۔انھوں نے مظاہروں کے آغاز کے بعد اپنی پہلی نشری تقریر میں حکومت کے شراکت داروں کو اصلاحات کو بالائے طاق رکھنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اس پس وپیش کی وجہ سے عوام کو مظاہروں کی تحریک ملی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’’ لبنانی عوام نے ہمیں بہت سے مواقع دیے ہیں۔وہ اصلاحات اور ملازمتوں کے مواقع کی توقع کرتے ہیں۔ہم مسئلے کے حل کے لیے اپنے شراکت داروں کا مزید انتظار نہیں کرسکتے۔‘‘سعد الحریری کے زیر قیادت اس وقت لبنان میں ایک کثیر جماعتی حکومت قائم ہے۔اس میں ان کی مستقبل تحریک اور اس کی حریف ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ اور مستقبل پیٹریاٹک موومنٹ شامل ہیں۔ گذشتہ روز اس حکومت میں شامل مسیحی رہ نما سمیرجعجع کے زیر قیادت جماعت کے وزراء نے استعفے دے دیے ہیں جس کے بعد اس مخلوط حکومت کا وجود ڈگمگاتا نظر آرہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’’ ملک اس وقت مشکل دور سے گزررہا ہے۔‘‘ انھوں نے مظاہرین کو یہ یقین دہانی کرانے کی بھی کوشش کی ہے کہ اقتصادی اصلاحات کا مطلب صرف ٹیکس ہی نہیں ہے۔بیروت اور دوسرے شہروں میں مرد وخواتین اور بچے احتجاجی مظاہروں میں حصہ لے رہے ہیں۔وہ سرکاری حکام کی کرپشن اور ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔وہ حکومت کے کفایت شعاری کے لیے مجوزہ اقدامات اور انحطاط کا شکار انفرااسٹرکچر کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ سعد الحریری کی حکومت نے گذشتہ ہفتے وٹس ایپ پر کال سمیت پیغام رسانی کی مختلف سروسز پر ٹیکس کے نفاذ کی تجویز پیش کی تھی جس کے خلاف جمعرات کو لبنانی شہری سڑکوں پر نکل آئے تھے۔حکومت نے اس احتجاج کے بعد اپنی مجوزہ ٹیکس اصلاحات کو واپس لے لیا تھا لیکن پھر مظاہرین نے لبنان کے پورے سیاسی نظام میں اصلاحات کا مطالبہ شروع کردیا تھا۔ انھوں نے لبنانی وزیراعظم ، صدر اور پارلیمان کے اسپیکر سے بھی مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔