لداخ چلو‘ لداخ چلو‘ چلو تو لداخ کے پار چلو

   

انجینئر محموداقبال
’’بیٹھوبیٹھو ابھی تویہ ٹریلر ہے‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔اپوزیشن کی بنچوں پر سناٹا طاری ہوگیا۔ کھڑے ہوئے اپوزمیشن ممبران دوبارہ پھر ایسے بیٹھے کہ جیسے کبھی کھڑے ہی نہیں ہوئے تھے۔ سرکاری بنچس تھپکنے لگیں اور سرکار مسکرانے لگی۔ وزیرداخلہ امیت شاہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے اور بار بار پیچھے مڑمڑکر دیکھ رہے تھے۔ وزیراعظم نریندر مودی تھوڑی پر ہاتھ رکھے زیرِلب مسکرا رہے تھے۔ امیٹھی حلقہ میں راہول گاندھی کو پچھاڑ نے والی سمرتی ایرانی اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوتی ہیںاور تیزی سے پیچھے کی طرف لپکتی ہیں اور ’اسے‘ مبارکباد پیش کرتی ہیں او ر ’اسکے‘ ساتھ ایک اچھی سی سیلفی بناتی ہیں۔ یہ سترھویں لوک سبھا کے پہلے بجٹ اجلاس کا ایک دلچسپ منظرنامہ تھا۔ مودی سرکار کے دوسرے دور کا پہلا سیشن اور جموں و کشمیر کے متنازعہ آرٹیکلس 370 اور 35A کی تنسیخ پر پارلمینٹ کے ایوان زیریں میں زوردار بحث چل رہی تھی۔ وہ معزز نومنتخب رکن لوک سبھا کون تھا؟ جسکی پُرجوش اور پُر زور تقریر سے پورا ایوان محفوظ و مبہوت ہوگیا تھا؟ وہ کوئی اور نہیں مرکزی زیر انتظام علاقہ لداخ سے نو منتخب بی جے پی کا نوجوان ایم پی جمیانگ ٹی نمگیان ہے جو راتوں رات سوشل میڈیا اوردیش بھر میں مقبول ہو گیا تھا۔
روزنامہ’سیاست‘ مورخہ 12؍ جنوری 2021 کا شمارہ دیکھا آپ نے؟ صفحہ 5 پر نمایاں طور پر ایک خوبصورت اور دلچسپ سرخی سجی ہے جسے دیکھ کرلگتا ہے مرتب صاحب نے بڑے چاؤسے سجائی ہے۔ ان کی زندہ دلی کی ہم داد دیتے ہیں لیکن پوری خبرپڑھ کرہم نہ سہی یقینا نوجوانوں پر مایوسی طاری ہوگئی ہوگی۔ خبرہی ایسی تھی ’’یورپی لڑکیوںکی لداخ میں سیاحت کو ترجیح‘ اولاد حاصل کرنا اصل مقصد‘‘ ہندوستانی نوجوانوںکے ساتھ ساتھ ہندوستانی نیک بیبیوں اور دیویوں پر بھی غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہونگے کہ لداخ کے آرین نسل کے خوبرو نوجوان فرانس، جرمنی اور اسپین کی خواتین کو لبھاتے ہیں اور وہ لداخ میں ہفتہ دو ہفتہ قیام کرتی ہیں اور حاملہ ہوکر خوشی خوشی اپنے وطن واپس لوٹتی ہیں اور وہاں جاکر آرین نسل کی افزائش کرتی ہیں ۔ ظاہرسی بات ہے کہ ہندوستانی ستی ساوتریاں اور شہزادیاں اسطرح تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اولاد پیدا کر نے سے قاصر رہیں :
ہم نے اس 4 کالم کی سرخی اور خبرکو بار بار پڑھا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خبر ہمیںادھوری لگی۔ قصور شاید مرتب صاحب کابھی نہیں بلکہ اس محقق کا ہے جسکے حوالہ سے یہ خبر چھپی ہے۔ کشمیر یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر منظور احمد صاحب کی تحقیق ہے۔ پروفیسرصاحب نے تحقیق توبہت خوب کی لیکن آدھی ۔ آرین نسل کے خوبرو نوجوانوںکا تو ذکر ہے لیکن لڑکیوں اور خواتین کی خوبصورتی کا کوئی ذکر ہی نہیں؟
ہت تیری کی۔۔۔۔ اب ہندوستانی نوجوانوںکولداخ کی سیاحت کی طرف راغب کریں توکیسے کریں؟ یورپی لڑکیوں کی لداخ میں سیاحت کو “PREGNANCY TOURISM” کا نام دیا گیا ہے۔ اب ہندوستانی عوام کو اپنے ہی علاقہ لداخ کی سیاحت کی طرف کیسے لے جائیں؟ لداخ میں جنوری کے مہینہ میں سب سے زیادہ برفباری ہوتی ہے اوردرجہ حرارت منفی 30 ڈگری تک چلا جاتا ہے۔ جب سے لداخ مرکزی زیر انتظام علاقہ بنا اور جموں وکشمیر سے علحدہ کر دیا گیا تب سے ہمارے دل میں لداخ کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھنے کا ارادہ تھا۔ ’’ پریگنینسی ٹورازم ‘‘ کے نام پر ہندوستانی دوشیزاؤںکو لداخ کی سیر وسیاحت کی دعوت دینے سے تو ہم شرمسار رہے۔ یہی بات اگر حیدرآبادی نوجوان سے کہی جائے تو وہ کہے گا ’’بیگن کا ٹورازم‘‘ حالانکہ جنوری کے مہینہ میں لداخ میں یوتھ فیسٹول شروع ہوچکا ہے اور ہر سال قریب دو ہزار سیاح لداخ میں اور زنسکارندی میں جمی برف پر ’ ’چادر ٹریکنگ‘‘ کا لطف اٹھانے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔
حکومت ہندکے منظور شدہ جغرافیائی اور پولیٹکل نقشہ پر نظر ڈالیں تو ہندوستاںکا بالکل اوپری حصہ ہندوستانی صوبوں جموں وکشمیر و لداخ سمیت پاکستانی زیر قبضہ علا قہ ‘ POK‘ اقصائی چین پر مشتمل ہے۔ اسکے علاوہ لداخ کا شمالی علاقہ سیاچن گلیشیر76 کیلو میٹر لمبا ہے ۔ جسکے مشرقی جانب اقصائی چین ہے اورمغربی جانب گلگت بلتستان کا علاقہ ہے۔ مزید برآں ایک اور متنازعہ علاقہ سیاچن کے مغرب میں اورگلگت بلتستان کے شمال میںشاکسگم وادی کا ہے۔ یہ تمام علاقے ہندوستانی نقشہ میں نظرآتے ہیںجنہیں ہم ‘تاج ہند‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ جموں کشمیرسے لداخ کوعلحدہ کرنے اور دھارا ” 370 “35Aکو دستور ہند سے خارج کرنے کے بعد سے نئی دہلی کی نظریں پاکستانی زیر قبضہ ’آزاد کشمیر‘ اورگلگت بلتستان پر جمی ہوئی ہیں۔ ان علاقوںکی صدیوں پرانی تاریخی اہمیت ہے۔ شاہراہ ریشم یعنی تاریخی “SILK ROAD” ان ہی علاقوں سے ہو کرگذرتی ہوئی مغرب کو مشرق سے جوڑتی ہے۔ ہندوستاںکے لئے یہ علاقے بہت اہم ہیں چونکہ یہ اگر دوبارہ سے نئی دہلی کے تسلط میں آجائیں توہندوستان کا زمینی رابطہ نہ صرف افغانستان سے بلکہ وسطی ایشیائی ریاستوں سے جڑ جائگا۔
پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد 31؍ اکٹوبر 2019 کو لداخ کو مرکزی زیرانتظام علاقہ قرار دیاگیا ہے۔ لداخ قریب 60 ہزار مربع کیلو میٹر کے رقبہ پر مشتمل ہے۔ جسکے دوضلع ہیں لیہہ اور کارگل۔ لیہہ صدر مقام ہے لداخ کا۔ یہی وہی کارگل ہے جس پر جنرل پرویز مشرف کے جنگجو کارگل کی اونچی برفیلی پہاڑیوں پر قابض ہوگئے تھے اور پرویز مشرف نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ میں نے انڈیا کی گردن دبوچ دی تھی۔ اسوقت نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم تھے اور پرویز مشرف آرمی چیف جب نواز شریف کواپنے آرمی چیف کی حماقت کا علم ہوا تو وہ بھاگے بھاگے بل کلٹن کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اورکلنٹن سے درخواست کی تھی کہ وہ پاکستان کوممکنہ ہندوستانی ایکشن سے بچائیں ۔ یہیں سے نواز شریف اور مشرف کے اختلافات کا آغاز ہوا تھا اور بالآخرمشرف نے نوازشریف کاتختہ الٹ دیا تھا۔
لداخ کی کل آبادی قریب پونے تین لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ جس میں 46 فیصد شیعہ مسلمان‘ 40 فیصد بدھسٹ‘ قریب 12فیصد ہندو اور 2 فیصد سکھ ہیں۔ لداخ میں لداخی، ہندی اور اردو عام فہم زبانیں ہیں۔ کارگل کی کل آبادی قریب سوا دو لاکھ کے اوپر ہے جس میں 77 فیصد مسلمان ‘ 65 فیصدی شیعہ مسلمان‘ 15فیصدی بدھسٹ‘ ہیں۔ دنیا کي سب سے لمبي ATAL لداخ کے مشہور سیاحتی علاقہ پنگاونگ ٹسو (PANGAONG TSO) جھیل ہے۔ یہ کھارے پانی کی جھیل 134 کیلو میٹر لمبی اور 5 کلو میٹر چوڑی ہے جو جموں وکشمیر ’ لداخ ‘ تبت اور چین کے علاقوں پرمشتمل ہے۔ اس جھیل کی گہرائی صرف 100 میٹرکے قریب ہے اور یہ جھیل سطح سمندر سے 4250 میٹر کی اونچائی پر ہے۔ اس جھیل کاپانی اتنا صاف و شفاف ہے کہ 100 میٹر گہری تہہ پانی کی سطح سے نظرآتی ہے۔ 2009 میں ہالی ووڈ کی ایک مشہور فلم ‘3 IDIOTS’ریلیز ہوئی تھی جس کے کردار عامرخان، آرمادھون اور شرمن جوشی تھے اور ان 3 ایڈیٹس کے ساتھ کرینہ کپور جلوے بکھیر رہی تھیں۔ اس فلم کی شوٹنگ اس تاریخی جھیل میں بھی ہوئی تھی اورکہانی بھی لداخی نوجوان کے گرد گھومتی ہے جسے عامر خان نے بخوبی نبھایا تھا۔
اسکے علاوہ لداخ میں ہیمیس نیشنل پارک Park) (Hemis National ہے جہاں سیاح سیر و تفریح کے لئے آتے رہتے ہیں۔ اس پارک کا رقبہ 600 مربع کیلو میٹر سے زیادہ ہے۔ جو صدر مقام لیہہ سے قریب 40 کیلو میٹرکی دوری پر واقع ہے اور دریائے سندھ مغربی کنارے کنارے چلتا ہے ۔ اس پارک میں پہاڑ ی جانور جیسے برفرفانی چیتے جنکی تعداد 200 سے زیادہ ہے سیاحوںکواپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اس پارک میں اوربھی جانور جیسے شاپو (SHAPU) ، تبتین وولف اور براؤن بیرس ہیں۔ لداخ میں DRDO کی بھی ایک شاخ ہے جو منفی 20 ڈگری درجہ حرارت میںسبزیوں کو اگانے پر ریسرچ کرتی ہے جسے گرین ہاؤس ٹکنالوجی کہتے ہیں۔ نامور ادارہ ‘DIHAR’ (Defence Institute of High Altitue Research) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لداخ میںکبنھ والے اونٹ بھی بکثرت چرا گاہوں میں نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹروں کو لداخ میں امچھی (AMCHI’s) کے طور پر جانا جاتا ہے جومعدہ کی خرابیوںکو دور کرنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ یہاں کا ایک پوداسولو’SOLO’ دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے جسے عرف عام میں لافانی یعنی سنجیونی (SANGEEVANI) بھی کہتے ہیں۔ محکمہ سیاحت کي جانب سے حال ہی میں ہیلی کاپٹر سروس شروع کی گئ ہے جس کا کرایہ صرف 3 ہزار ہے اور10 منت میں لداخ کی برفیلی پہاڑیوںکے خوبصورت نظارو ںسے لطف اندوز ہوسکتے ہیں ۔
لداخ کے شمال مشرق میں صدیوں پرانی تجارتی گذرگاہ ‘ کارواں یعنی درہ قراقرم واقع ہے۔ یہ گذرگاہ 5540 میٹر کی بلندی پر واقع ہے اوردو برفیلی پہاڑیوں کے درمیان ایک تنگ درہ ہے جسکی چوڑائی صرف 45 میٹر ہے ( فٹ 148) اور ہندوستان کے لداخ کوچین کے علاقہ زنجیانگ سے جوڑتی ہے۔ درہ قراقرم کو انگریزی میں KARAKORAM PASS’ ‘کہتے ہیں۔قراقرم ایک منگولیائی لفظ ہے جسکے منعی اردو میں ’’سیاہ کنکر‘‘ ہے۔ درہ قراقرم اس تاریخی پڑاؤ‘ گاؤں یا مقام کے بہت قریب ہے جسے دولت بیگ اولو کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دولت بیگ کے مقام پر سکندر اعظم کی فوج کے کچھ لوگ چلے آئے تھے اور سکندر اعظم بیمار پڑھ کر دریائے سندھ کے مغربی کنارے ہی سے واپس لوٹ گیا تھا۔
مختصر سی تمہید‘ سیروتفریح وسیاحت و جغرافیائی جائزہ کے بعد اب ہم موجودہ سیاسی صورتحال پر ایک نظرڈالتے ہیں۔ گزشتہ 10 ماہ سے پڑوسی ملک چالاک چین لداخ میںکافی متحرک ہوگیا تھا اور ہندوستانی افواج اس کی دراندازیوںکا منہ توڑ جواب دے رہی ہیں۔ نہ صرف اروناچل پردیش میں بلکہ لداخ سمیت ہندوستانی فورسیس ہند۔چین طویل سرحد پرکافی ہائی الرٹ پر ہیں۔ چین میں صرف ایک ہی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہے اور اس کی اندورنی وبیرونی سیکوریٹی و خارجہ پالیسیوں میں تسلسل ہے اور برعکس اسکے ہندوسان ایک جمہوریہ ہے اورکانگریس کی اکلوتی اجارہ داری کے بعداب مخلوط حکومتوں کا دور شروع ہوچکا ہے۔ سرحدوں پرگمبھیر ہوتی ہوئی صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ہندوستان کی ایک بین الاقوامی سیکوریٹی و خارجہ پالیسی ہو اور اس پر الیکشن کمیشن آف انڈیا سے منظورشدہ تمام سیاسی پارٹیاں اتفاق رکھیں اور دنیا کے سامنے اپنے آپس کے اختلافات کا ڈھنڈرہ نہ پیٹین تاکہ دشمن اُسکا ناجائز فائدہ نہ اٹھاسکیں۔ 1962 کی جنگ میں چین نے ہندوستان کے کافی بڑے علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ اقصائی چین‘ سیاچین‘ POK ‘ گلگت، بلتستان وغیرہ صدیوںسے ہندوسانی زیرقبضہ علاقے رہے ہیں۔ چین‘ گلگلت بلتستان اور آزاد کشمیر سے ہوتا ہوا دنیا کی سب سے بڑی گہری بندرگاہ گواورتک پہنچ چکاہے۔ (CPEC) یعنی چین ۔ پاکستان اکنامک کوریڈور‘ دور حاضر میں دنیا کا سب سے بڑا پراجکٹ ہے جسکا تخمینہ اندازاً 45 بلین امریکی ڈالر رہے۔ یہ نام نہاد CPEC پراجکٹ اور سرحدوں پر سنجیدہ اورگمبھیر ہوتی ہوئی صورتحال نئی دہلی کے لئے باعث تشویش و تذبذب ہے۔
ہند و چین کے درمیان کوہ ہمالیہ کے سلسلے قدرتی دیوار ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی چو ٹی ماونٹ ایورسٹ کوہ ہمالیہ کی شان ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی چو ٹي K2 بھي پاکستاني مقبوضہ علاقہ میں واقع ہے۔ یہ پہا ڑی سلسلے ہندوستان کی قدرتي سرحدیں ہیں۔ لیکن چین انہیں پھلانگ کر ہندوستانی میدانی علاقوں میں در اندازی کی کوششیں کر رہا ہے۔ لیکن ہندوستانی فورسس نے چیني و پنگاونگ ٹسو (PANGAONG TSO)جھیل کے فنگر ۸ کے مشرقی جانب جا نے پر مجبور کر دیا ہے جہان گزشتہ دس مہینوں سے دونون ملکوں کی فورسس آمنے سامنے تھیں۔علامہ اقبال نے بہت پہلے کہا تھا
پربت وہ سب سے اونچا‘ ہمسایہ آسماں کا
وہ سنتری ہمارا‘ وہ پاسباں ہمارا
تاریخ صدیوں میں بنتی اور لمحوں میں بگڑتی ہے۔ اُمید ہے کہ ہندوستان جلد سرحدوں پرکشیدہ ہوتی ہوئی صورتحال اور تنازع پر قابو پالیگا اور مستقبل میںسرحدوں کی سلامتی کو یقینی بنایبگا۔تاکہ 1962کی تاریخ نہ دہرائی جا سکے۔
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی