لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ سب کو

   

محمد مصطفی علی سروری
پیر کے دن 28؍ جنوری کا سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا لیکن سری وانی ڈگری کالج ونپرتی کے 6 طلباء رات کے اندھیرے میں اپنے گھر سے تقریباً 170 کیلومیٹر دور سکندرآباد کے قریب مولا علی کے علاقے میں ایک سڑک کے کنارے بیٹھے صبح ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ ان 6 طلباء میں ایس اروند بھی شامل تھا جو سری وانی کالج سے بی کام کمپیوٹرس کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ اپنے گھر، کالج اور ہاسٹل سے دور ان بچوں کے لیے مولا علی کے علاقے میں رہنے کے لیے کوئی مکان نہیں تھا اور چونکہ یہ طلباء غریب تھے تو ان کے پاس ہوٹل میں ٹھہرنے کے بارے میں سونچنا بھی ممکن نہیں تھا اروند کے والد انجلنا بطور الکٹریشین کا کام کرتے ہیں۔ ان کا بڑا لڑکا ڈگری فائنل ایئر میں زیر تعلیم ہے۔ مولا علی میں واقع ریلوے انجینئرنگ ریجمنٹ (علاقائی فوج) کے کمپائونڈ کے باہر ونپرتی کے صرف یہی 6 نوجوان نہیں بلکہ تلنگانہ، آندھرا پردیش اور مہاراشٹرا سے تعلق رکھنے والے ہزاروں نوجوان 28؍ جنوری کو ہونے والی آرمی ریکروٹمنٹ ریالی میں شرکت کرنے کے لیے ایک رات پہلے ہی آگئے تھے اور کمپائونڈ کے اطراف و اکناف سڑک ، فٹ پاتھ پر ہی رات بسر کر رہے تھے۔ اخبار ٹائمز آف انڈیا کی 29؍ جنوری کو شائع ہوئی رپورٹ کے مطابق ونپرتی کے نوجوان اروند نے اپنے دیگر دوستوں کے ساتھ حوائج ضروریہ سے فارغ ہونے کے لیے سڑک پار کھلے میدان کا رخ کیا، جہاں پر بدقسمتی اروند نے ایک برقی تار کو چھولیا اور ہائی ٹینشن وائر میں دوڑنے والی برقی نے اس 20 سالہ نوجوان کی جان لے لی۔
قارئین اس ساری تفصیلات کو یہاں پر بتلانے کا مقصد یہ تھا کہ ہم مسلمانوں میں بہت سارے نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ انہی کی زندگی میں جدو جہد ہے۔ پریشانیاں اور مسائل ہیں اور باقی کا سارا ہندوستان آرام سے دو وقت کی روٹی کھارہا ہے۔ کیا یہ سچ ہے؟ ذرا غور کیجئے۔
جس وقت شہر کا درجہ حرارت 10 ڈگری سنٹی گریڈ سے بھی کم ریکارڈ کیا جارہا تھا دو ایک نہیں ہزاروں نوجوان تھے جو آرمی کی اس ریکروٹمنٹ ریلی میں شرکت کے لیے ہزاروں کیلومیٹر دور سے سفر کر کے مولا علی کے گرائونڈ کو پہنچے تھے۔ یہ سفر کسی پرائیویٹ گاڑی سے نہیں بلکہ سرکاری بسوں سے اور پیدل چل کر طئے ہوا تھا اور صبح ہونے سے پہلے سردی اتنی زیادہ بڑھ گئی تھی کہ ان نوجوانوں کو قریب میں لکڑیاں اکٹھا کر کے آگ جلانی پڑی تاکہ سڑک کے کنارے کھلے آسمان کے نیچے اپنے آپ کو گرم رکھ سکیں۔ قارئین آرمی ریکروٹمنٹ کی اس ریالی میں شرکت کے لیے ایک امیدوارکو آٹھویں تا دسویں جماعت پاس کرنا ضروری تھا اور بہت سارے نوجوان ایسے تھے جنہوں نے ڈگری کی تھی یا ڈگری کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
شہر حیدرآباد میں روزگار کے لیے صرف آرمی ریکروٹمنٹ ریالی ہی واحد موقع نہیں ہے۔ آئی ٹی سیکٹر میں روزگار کے مواقع ہیں اور بہت سارے نوجوانوں کو معلوم بھی ہے کہ حیدرآباد میں انفارمیشن ٹیکنالوجی نے روزگار کے سینکڑوں مواقع پیدا کیے ہیں۔ یہ تو منظم شعبہ ہے۔ اس Organized سیکٹر کے علاوہ غیر منظم شعبہ میں بھی شہر حیدرآباد میں روزگار کے مواقع موجود ہیں۔ حکومت تلنگانہ کی جانب سے معاشی طور پر پسماندہ افراد کے لیے ڈبل بیڈ روم پر مشتمل مکانات کی تعمیر کا پراجیکٹ شروع کیا گیا ہے۔ شہر حیدرآباد سے تقریباً 35 کلومیٹر دور کیسرا منڈل میں اس اسکیم کے تحت 52 ٹاورس تعمیر کیے جارہے ہیں۔ ہر ٹاور میں 120 فلیٹس بنائے جارہے ہیں۔ 31؍ جنوری کو رام پلی گائوں کے کیسرا منڈل میں واقع ایک ٹاور کی تعمیری سرگرمیوں کے دوران ایک حادثہ پیش آیا اور اس حادثہ میں 5مزدور ہلاک ہوگئے۔ اخبار دی ہندو نے یکم؍ فروری 2019 کو اس حوالے سے ایک خبر شائع کی۔ خبر میں ان مزدوروں کے متعلق تفصیلات بتلائی گئی جو اس حادثہ میں اپنی جان گنوا بیٹھے تھے۔ مرنے والوں میں 27 سال کا شفیق الحق بھی شامل تھا۔ شفیق کا تعلق مغربی بنگال کے ضلع مرشد آباد سے تھا۔ اس کے ساتھ ملن شیخ نام کا ایک20 سالہ نوجوان بھی مرنے والوں میں شامل تھا۔ شیخ کا تعلق بھی مغربی بنگال سے تھا۔ اس کے گھر میں ضعیف والدین کے علاوہ سات چھو ٹے بھائی بہن بھی ہیں جن کی ضروریات پوری کرنے کے لیے شیخ ہر ماہ اپنی تنخواہ گھر بھجوادیا کرتا تھا۔ مغربی بنگال سے یہ مزدور حیدرآباد آکر یہاں پر غیر منظم شعبہ میں بطور تعمیراتی مزدور کام کر رہے تھے اور قارئین یہ بھی جان لیجئے یہ لوگ مہینہ بھر کام کرنے کے بعد 6 تا 7 ہزار تنخواہ حاصل کرتے تھے۔ اور عید بقرعید پر بھی گھر کا رخ نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ گھر جاتے تو اس کا الگ سے خرچہ ہوجاتا تھا۔ شفیق ہو یا شیخ یہ نوجوان مرشد آباد بنگال سے ایک ہزار سات سو کیلو میٹر کا فاصلہ طئے کر کے شہر آتے ہیں اور ماہانہ سات ہزار کی تنخواہ پر کام کرتے ہیں اور اسی کام کے دوران ان لوگوں نے اپنی جانیں بھی گنوادیں۔ جی ایچ ایم سی کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے حوالے سے اخبار دی ہندو نے لکھا ہے کہ ان مزدوروں کے لواحقین کو فی کس 15 لاکھ روپئے کی ایکس گریشیا دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ مغربی بنگال میں بھی مسائل ہیں۔ وہاں کے لوگ اس کا سامنا کر رہے ہیں اور محنت کر کے کمانے کے لیے حیدرآباد تک کا سفر کرنا گوارہ کر رہے ہیں۔
30؍ جنوری 2019 کی شام شہر حیدرآباد کی مشہور و معروف کل ہند صنعتی نمائش کی دوکانات میں بھیانک آگ لگی۔ چند ہی گھنٹوں میں اس آگ نے نمائش میں لگے کئی اسٹالس کو تباہ کرڈالا۔ صرف کپڑے اور دیگر مصنوعات ہی نہیں لاکھوں کی مالیت کے ڈرائی فروٹس بھی آگ میں جل کر راکھ بن گئے۔ تقریباً ڈھائی سو اسٹالس خاک کے ڈھیر میں بدل گئے۔ کئی کاروباری افراد کا سارا سامان یہاں تک کہ کاروبار سے ملنے والی پیسوں کے غلے بھی جل گئے۔ ان متاثرین میں حیدرآباد سے تقریباً ڈھائی ہزار کیلومیٹر کے فاصلے سے آنے والے کشمیریوں کے اسٹالس بھی شامل تھے۔ ان کشمیریوں نے نمائش میں لگنے والی آگ میں اپنا سارا سامان، اسٹالس اور ڈرائی فروٹس سب کچھ کھودیا۔ یہاں تک کہ ان میں بعض کشمیریوں کے ہاں صرف جسم پر پہنے ہوئے کپڑے ہی باقی بچ گئے تھے۔ اخبار تلنگانہ ٹوڈے کے نمائندے پرینیتا گپتا نے جب ان متاثرہ کشمیریوں سے دریافت کیا کہ اس نمائش میں اپنا سب کچھ گنوا دینے کے باوجود کیا وہ لوگ اگلے برس دوبارہ شہر حیدرآباد آکر نمائش میں اپنا اسٹال لگانا چاہیں گے؟ سجاد احمد نامی ایک کشمیری تاجر نے تلنگانہ ٹوڈے کو بتلایا کہ ان شاء اللہ ہم یقینی طور پر اگلے برس بھی نمائش میں اپنا اسٹال لگانے آئیں گے۔ اس آگ کے حادثہ سے ہم ڈرنے والے نہیں۔ چونکہ ہمیں معلوم ہے نقصانات بھی کاروبار کا ہی ایک حصہ ہوتے ہیں۔ اس لیے ہم ہمت ہارنے والے نہیں ہیں۔ ہم دوبارہ یہاں آکر کاروبار کرنا چاہیں گے۔
نمائش میں آگ لگنے کے واقعہ میں بھاری نقصانات اٹھانے کے باوجود کشمیری تاجر نے اپنے اس عزم کا اظہار کیا۔ وہ اگلے برس نمائش میں دوبارہ شریک ہوگا۔ کیونکہ آگ کے حادثہ میں اس نے اپنا مال کھویا ہے حوصلہ نہیں۔
ہمارے سماج میں کتنے ایسے لوگ ہیں جو حالات کا سامنا کرنے سے گھبراجاتے ہیں۔ ان کے لیے یہ بات ترغیب کا سبب بننی چاہیے کہ کاروبار کرنا ہے اور حلال طریقے سے منافع بھی کمانا ہے تو اپنے آپ کو نقصانات کا سامنا کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار رکھنا ہوگا۔ اگر نقصان کا خدشہ نہ ہو اور صرف منافع کی گیارنٹی ہو تب تو وہ کاروبار یا آمدنی جائز بھی ہے یا نہیں کا سوال اٹھتا ہے۔
قارئین زندگی میں مشکلات کسے پیش نہیں آتی ہیں۔ صحت مند انسان تو صحت مند انسان ذرا تصور کیجئے ہمارے سماج میں جو لوگ معذور ہیں ان کے لیے تو مشکلات کے بارے میں ہم تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔
چندی گڑھ کے رہنے والے روہت کمار کو چلنے پھرنے کے لیے بھی ایک وہیل چیر درکار ہے۔ کیونکہ روہت کا جسم 40 فیصدی مفلوج ہوچکا ہے۔ اپنے جسم کے مفلوج ہوجانے کے باوجود روہت نے ہمت نہیں ہاری اور آگے تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کو اپنے دل میں ہمیشہ زندہ رکھا۔ گذشتہ برس روہت نے آل انڈیا میڈیکل انٹرنس امتحان (NEET) میں شرکت کی اور 181 واں رینک بھی حاصل کرلیا۔ لیکن چندی گڑھ کے گورنمنٹ میڈیکل کالج نے روہت کو داخلہ دینے سے منع کردیا لیکن روہت نے ہمت نہیں ہاری اور ہائیکورٹ میں عرضی داخل کی۔ دو مہینوں کی قانونی کشاکش کے بعد بالآخر کورٹ نے کالج کو ہدایت دی کہ وہ روہت کو نہ صرف داخلہ دے بلکہ جرمانے کے طور پر 5 ہزار روپئے بھی ادا کرے۔ (بحوالہ 26؍ ستمبر 2018۔ اخبار ٹائمز آف انڈیا)
قارئین آگے بڑھنے اور ترقی کرنے سے کسی کو پیچھے نہیں ہٹایا جاسکتا ہے جب تک کہ امیدوار اور طالب علم خود ہی ہمت نہ ہارے۔ نوجوانوں اور طالب علموں کو یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی ہوگی کہ کامیابی اور بڑے مقاصد کے حصول کے لیے ہمیشہ پہلا قدم اٹھانا اہم ہے اور اس مقصد کے لیے قدم چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں، اٹھانا اہم ہے اور مواقع چاہے چھوٹے کیوں نہ ہوں، ان سے استفادہ کرنا ضروری ہے۔ اگر ہم اپنے اطراف و اکناف دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ مواقع چھوٹے ہوتے ہیں لیکن اس کے نتائج بڑے نکلتے ہیں۔ کامیاب وہی لوگ ہوتے ہیں جو انہیں ملنے والے چھوٹے چھوٹے مواقع سے بھی استفادہ کرلیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلقات کو مضبوط بھی بناتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم ہندوستانیوں اور خاص کر نوجوانوں کو محنت کے راستے پر چلنے میں مدد فرما اور ان لوگوں کا راستہ چلا جن پر اس نے انعام کیا ہو۔(آمین یا رب العالمین)بقول شاعر ؎
لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ سب کو
مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com