محبوب نگر شہر کے قلب میں اردو گھر کی عمارت مسلمانوں سے چھیننے کی تیاریاں !

   

مسلم اقلیت میں بی آر ایس قائدین کی شبیہ متاثر ، اسمبلی انتخابات میں انقلابی تبدیلی کا امکان
عیدگاہ رحمانیہ وقف کی اراضی پر بھی بری نظر ، عیدگاہ کمیٹی کو فوری تحلیل کرنے عوام کا مطالبہ
حیدرآباد ۔ 12 ۔ جولائی : ( سیاست نیوز ) : ضلع محبوب نگر کا شمار نہ صرف تلنگانہ بلکہ جنوبی ہند کے خوشحال تعلیم یافتہ اضلاع میں ہوتا ہے اور خاص طور پر یہاں کی گنگا جمنی تہذیب مثالی ہے ۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ محبوب نگر میں مسلمانوں نے ہمیشہ سیکولر جماعتوں کی تائید و حمایت حاصل کی لیکن ان کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے قائدین نے ان سے نا انصافی کی ان سے امتیاز برتا جانبداری و تعصب کا مظاہرہ کیا جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ نظام ششم نواب میر محبوب علی خاں صدیقی سے موسوم محبوب نگر کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ابتداء سے ہی وہاں خداترس بندوں نے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لیے قیمتی اراضیات وقف کی تاکہ مستقبل کی نسل ان اراضیات اور موقوفہ جائیدادوں سے استفادہ کرسکے لیکن فرقہ پرست ذہن کے حامل سیاسی قائدین اور مسلمانوں کی صفوں میں شامل میر جعفر میر صادق جیسی فطرت رکھنے والوں نے موقوفہ جائیدادوں کو لوٹ کر کھایا ۔ جہاں تک نواب میر محبوب علی خاں بہادر کا سوال ہے ان ہی کی حکومت کے دوران 1884 میں حیدرآباد دکن کی سرکاری زبان فارسی سے اردو کی گئی ان ہی کے دور میں 1869 میں نظام ریلوے اسٹیٹ محکمہ پولیس و محابس ( 1884 ) کا قیام عمل میں آیا ۔ آج حیدرآباد میں آصفیہ کتب خانہ ( اسٹیٹ سنٹرل لائبریری ) دیکھ رہے ہیں نواب میر محبوب علی خاں بہادر صدیقی کے دور حکومت میں ہی 1884 میں قائم کی گئی تھی ۔ 1872 میں مدرسہ عالیہ بھی ان کے دور حکمرانی کی یادگار ہے ۔ انہیں ہی 1892 میں دائرۃ المعارف کا قیام عمل میں لاکر تعلیم و تحقیق کے شعبہ کو ایک نئی جہت عطا کرنے کا اعزاز حاصل ہے ۔ آج آپ جو قانون ساز اسمبلی کی عظیم الشان عمارت دیکھ رہے ہیں اس کا سنگ بنیاد بھی نظام ہشتم کے دور حکمرانی میں رکھا گیا تھا ۔ بہر حال ہم بات کررہے تھے محبوب نگر کے مسلمانوں سے روا رکھی جانے والی ناانصافیوں و حق تلفیوں کی اس ضمن میں آپ کو بتادیں کہ محبوب نگر ( متحدہ ضلع ) میں جملہ موقوفہ اراضی 9626.6 ایکڑ ہے لیکن اس میں سے 90 فیصد موقوفہ اراضیات پر ناجائز قبضے کر لیے گئے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ 135 سالہ عبدالرحمن خاں صاحب مرحوم جن کا شمار ریاست کے کامیاب کنڈاکٹرس میں ہوتا تھا ۔ حج بیت اللہ روانگی سے قبل مسلمانان محبوب نگر کے لیے عیدگاہ کی خاطر 626.6 ایکڑ اراضی وقف کی تھی تاہم سیاسی لیٹروں و ڈاکوؤں نے اسے ایسا لوٹا کہ اب عیدگاہ کے لیے وقف کردہ 626.6 ایکڑ اراضی میں سے 14 ایکڑ اراضی ہی باقی رہ گئی یعنی محبوب نگر میں عیدگاہ وقف رحمانیہ 14 ایکڑ اراضی تک محدود رہ گئی ۔ مقامی عوام کا کہنا ہے کہ دو ماہ قبل عیدگاہ کمیٹی کی تشکیل عمل میں آئی ۔ جس کے صدر اور معتمد دونوں پر عوام بدعنوانی کے سنگین الزامات عائد کررہے ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے عناصر کی سرپرستی کون کررہا ہے ؟ ہم نے کل کی رپورٹ میں آپ کو بتایا تھا کہ اقتدار پر فائز سیاسی قائدین شادی خانہ عیدگاہ کی اراضی پر تعمیر کرنا چاہتے ہیں ۔ جب کہ وہ شریعت کے خلاف ہے ۔ عوام تو اب عیدگاہ کمیٹی کو فوری تحلیل کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ شہر کے قلب میں ہزار مربع گز اراضی پر اردو گھر ہے تاہم مقامی عوام کا کہنا ہے کہ اردو گھر کو ایس ٹیز کے حوالہ کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں ۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر مسلمانوں کے ووٹوں سے کامیابی حاصل کرنے کے باوجود مسلمانوں سے ہی یہ ناانصافی کیوں کی جارہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ انہیں اقتدار تک پہنچانے والے مسلمانوں کی بہبود اور ان کی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے کام کیا جاتا ۔ بیروزگار مسلم نوجوانوں کو قرض دلاتے ، کاروبار شروع کرنے میں ان کی مدد کی جاتی۔ مقامی عوام کا یہ بھی الزام ہے کہ مسلمانوں سے قبرستان کے لیے اراضی الاٹ کرنے کا وعدہ کیا گیا ، لیکن اب تک یہ وعدہ وفا نہ ہوسکا ۔ اب جب کہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ ناانصافی کرنے والے قائدین کا امیج بہت خراب ہوگیا ہے جس کے نتائج انہیں بھگتنا پڑ سکتا ہے ۔ بہر حال سیاسی قائد اور ان کے چمچوں کے لیے اب بھی وقت ہے کہ وہ ان پر عائد کردہ عوامی الزامات کی وضاحت کریں اور یہ بتائیں کے انہیں اقتدار عطا کرنے والے محبوب نگر کے مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی کے لیے انہوں نے کیا اقدامات کئے ؟