محمد بن سلمان ۔ ڈونالڈ ٹرمپ ملاقات

   

باہمی مفادات کی تکمیل ۔ بڑی اور عالمی تبدیلیوں کی بنیاد رکھ دی گئی

محمد ریحان
سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے ۔ حالانکہ دونوں ملکوں کے تعلقات ہمیشہ سے مستحکم اور مضبوط رہے ہیں اور ایک دوسرے کی تائید و حمایت بھی کی جاتی رہی ہے تاہم اب ان تعلقات میں ایک نئی جہت اور نئی توانائی کی امید کی جا رہی ہے ۔ سعودی عرب کے ولیعہد اور وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکہ کا دورہ کیا ۔ وہ واشنگٹن گئے ۔ وائیٹ ہاوز میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ان کا پرتپاک استقبال کیا ۔ ان کے اعزاز میں عشائیہ بھی ترتیب دیا گیا ۔ دونوں قائدین کی ملاقات گرمجوشانہ رہی ۔ دونوں نے ایک دوسرے کی قیادت کی ستائش بھی کی ۔ دونوں نے باہمی تعلقات کو نئی بلندیوں تک لیجانے سے اتفاق بھی کیا ۔ دونوں ممالک کے مابین کئی معاہدات پر دستخط بھی کئے گئے ۔ سعودی عرب اپنے لئے کئی شعبہ جات میں امریکی تعاون حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے ۔ چاہے وہ F-35 لڑاکا طیاروں کا حصول ہو یا پھر مصنوعی ذہانت پر مشتمل چپس کا حصول ہو یا پھر انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے کیلئے معاہدہ ہو ‘ شہزادہ محمد بن سلمان ان تمام امور کو کامیابی سے مکمل کرپائے ہیں اور سب سے اہم بات ان کیلئے ایک شخصی کامیابی رہی ہے ۔ امریکی صدر نے شہزادہ محمد بن سلمان کو واشنگٹن پوسٹ کے کالم نویس جمال خشوگی کے قتل میں کلین چٹ دیدی ۔ ٹرمپ نے یہ دعوی کیا کہ محمد بن سلمان کو اس قتل کا قبل از وقت کوئی علم نہیں تھا جبکہ امریکی انٹلی جنس ماضی میں اس کے برخلاف رپورٹ پیش کرچکی ہے ۔ جہاں شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب کیلئے اس دورہ سے بہت کچھ حاصل کرنے میں کامیاب رہے وہیں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اپنے ملک کیلئے سعودی عرب کی ایک ٹریلین ڈالرس تک کی سرمایہ کاری حاصل کرنے پر مصر رہے ۔ سعودی عرب نے امریکہ میں بھاری سرمایہ کاری سے اتفاق کرلیا ہے اور آئندہ وقتوں میں یہ سرمایہ کاری ایک ٹریلین ڈالرس تک جا سکتی ہے ۔ جہاں محمد بن سلمان سعودی ضروریات کی تکمیل چاہتے تھے وہیں ٹرمپ کے سامنے بھی واحد مقصد سرمایہ کاری کا حصول تھا ۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ محمد بن سلمان کے دورہ امریکہ نے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے مزید قریب کردیا ہے اور خاص طور پر دونوں قائدین کے تعلقات مزید گہرے اور شخصی ہوگئے ہیں۔
جہاں ٹرمپ اپنے کیرئیر کوپیش نظر رکھتے ہوئے جلد بازی میں ہیں وہیں اب محمد بن سلمان بھی خود کو زیادہ سرگرم کرنے کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔ گذشتہ ایک دہے میں انہوں نے سعودی عرب کے داخلی امور پر زیادہ توجہ کی تھی ۔ سعودی معیشت کو مستحکم کرنے اور اس میں تبدیلی لانے میں کئی فیصلے کئے گئے ۔ سماجی حالات کی تبدیلی کیلئے بھی انہوں نے کئی ایسے فیصلے کئے جن کی توقع نہیں کی جا رہی تھی ۔ سیاسی اعتبار سے بھی وہ اپنے آپ کو منوا چکے ہیں۔ اب وہ مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے کام کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سعودی عرب کو ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھارنا چاہتے ہیں۔ مذہبی قدامت پسندی سے اوپر اٹھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سعودی عرب کی معیشت صرف تیل پر انحصار نہ کرے بلکہ ہمہ جہتی معاشی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے ۔ وہ الگ تھلگ ماحول کی بجائے عالمی سطح پر کئی رابطے رکھنا چاہتے ہیں اور تعلقات کو وسیع اور ہمہ جہتی کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ ملک کیلئے بن سلمان نے ویژن 2030 پر عمل کیا ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایک ہائی ٹیک اور سرمایہ کاری پر مبنی معیشت رہے ۔ ورلڈ کلاس انفرا اسٹرکچر کی تعمیر ہوسکے اور مستقبل کی ضروریات کے پیش نظر شہروں کا وجود ممکن ہوسکے ۔ ساتھ ہی جہاں سعودی عرب علاقائی تجارتی لیڈر کی حیثیت رکھتا ہے وہیں بن سلمان چاہتے ہیں کہ عالمی امور میں بھی سرگرمی سے حصہ لیں اور علاقائی دبدبہ کو مزید مستحکم کیا جائے ۔ ملک میں انہوں نے تمام اختیارات مرکوز کرلئے ہیں اور وہ سعودی عرب کے عملا حکمران بن گئے ہیں ۔ اسی حیثیت کو وہ عالمی سطح پر ابھارنے کی کوششوں کو تیز کرتے نظر آ رہے ہیں ۔ امریکہ کا دورہ اور صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے ملاقات اور کئی معاہدوں پر دستخط اسی سمت میں پیشرفت کے طور پر بھی دیکھی جا رہی ہے ۔
محمد بن سلمان سعودی عرب کی اہمیت کو نہ صرف مشرق وسطی بلکہ شمالی افریقہ تک بھی وسعت دینا چاہتے ہیں۔ وہ مسئلہ فلسطین کی یکسوئی بھی چاہتے ہیں اور اس کیلئے ڈوناَلڈ ٹرمپ سے کئی مرتبہ درخواست بھی کرچکے ہیں ۔ وہ مسئلہ فلسطین کے دو قومی حل کی تائید کرچکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس مسئلہ کی جتنا جلد ممکن ہوسکے یکسوئی ہوجائے تاکہ وہ مشرق وسطی کے تعلق سے اپنے بحیثیت مجموعی منصوبوں کو آگے بڑھا سکیں۔ اس کام کیلئے انہیں ڈونالڈ ٹرمپ کی تائید اور حمایت بہت ضروری ہے ۔ ٹرمپ کسی بھی کام کے عوض امریکہ میں سرمایہ کاری چاہتے ہیں اور محمد بن سلمان امریکہ میں سرمایہ کاری کیلئے تیار ہیں۔ دونوں قائدین نے اس دورہ کو انتہائی اہم اور سنگ میل بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے ۔شخصی سطح پر جہاں ایک دوسرے کی اہمیت کو دونوں سمجھتے ہیں وہیں عالمی امور میں بھی ایک دوسرے کی تائید کو ضروری جانتے ہیں۔ ایسے میں محمد بن سلمان کے دورہ امریکہ نے باہمی تعلقات کو آگے بڑھانے ‘ انہیں نئی جہت عطا کرنے اور دونوں ملکوں کی اہمیت کو عالمی سطح پر ابھارنے میں ایک اہم رول ادا کیا ہے ۔ جس طرح ڈونالڈ ٹرمپ عالمی سطح پر اپنے منصوبوں کو تیزی سے لاگو کرنا چاہتے ہیں اور ان پر عمل کرنا چاہتے ہیں وہیں محمد بن سلمان بھی انقلابی طبیعت و تبدیلی کی فطرت رکھتے ہیں۔ اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ بن سلمان سعودی عرب کی خارجہ پالسی میں بڑی تبدیلیوں کا بھی آغاز کردیں۔ ٹرمپ اور بن سلمان دونوں ہی بڑے عزائم رکھتے ہیں اور ان کی تکمیل کیلئے وہ زیادہ انتظار کے قائل بھی نہیں ہیں۔ عالمی سطح پر ان تعلقات کے کیا کچھ اثرات مرتب ہونگے اور ٹرمپ یا بن سلمان کے عزائم کس حد تک پورے ہونگے یہ آئندہ کچھ برسوں میں ہی واضح ہوسکتا ہے تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس دورہ سے کچھ بڑی اور اہم تبدیلیوں کی بنیاد ضرور رکھ دی گئی ہے ۔