محمد کبیر کے سیلف ڈیفنس نے آسنسول میں لنچنگ روک دی

,

   

آسنسول ، 19 ستمبر (سید زبیر احمد) کم عمر محمد کبیر جس نے 23 جولائی کو خود کے دفاع میں اپنے حملہ آور سورج بہادر کو ہلاک کیا تھا، وہ مغربی بنگال کے ضلع بردھامن کے آسنسول علاقہ میں ہیرو بن گیا ہے۔ وہ واقعہ تب پیش آیا جب کبیر گلزار محلہ (بی پی ایل کالونی) میں واقع اپنے مکان کو واپس ہورہا تھا۔ کبیر جو ایک پلاسٹک فیکٹری میں لیبر کے طور پر کام کرتا ہے، اسے اکثریتی کمیونٹی کے چار نوجوانوں کے گروپ نے روکا اور ’جئے سری رام‘ بولنے پر مجبور کیا۔ اُن کے درمیان دھینگا مشتی چھڑ گئی لیکن کبیر کسی طرح وہاں سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوا۔ دریں اثناء حملہ آوروں میں شامل سورج بہادر نے کبیر کا جارحانہ انداز میں تعاقب کیا اور اُسے کسی طرح پکڑلیا۔ کبیر کے بڑے بھائی محمد ارمان نے بتایا کہ کبیر نے اپنی جان کو خطرہ محسوس کرتے ہوئے ایک اینٹ اٹھائی اور سورج کے سر پر دے مارا جس کے نتیجے میں اُس کی موت ہوگئی۔ گلزار محلہ کے کئی مکینوں نے کہا کہ غنڈوں کا یہی گروپ جس نے کبیر پر حملہ کیا، اسکولی طلبہ کو جئے سری رام بولنے پر مجبور کرتا رہا ہے۔ مودی حکومت قائم ہونے کے بعد سے ماب لنچنگ (ہجومی تشدد) کے واقعات نیا معمول بن گیا ہے اور شمالی ہند کی ریاستوں میں لنچنگ کے سب سے زیادہ واقعات دیکھنے میں آرہے ہیں جن کے نتیجے میں کئی مسلمانوں کی موت ہوچکی ہے۔ جہدکار سید محمد افروز جو متاثرہ خاندانوں کی قانونی طور پر اعانت کررہے ہیں، انھوں نے بتایا کہ ماہ مئی سے ضلع بردوان میں مسلم ہاکروں پر حملے کے کم از کم 14 واقعات پیش آئے تھے، لیکن کبیر کا سیلف ڈیفنس میں اپنے حملہ آور کو مارنا اہم موڑ ثابت ہوا اور تب سے مسلمانوں پر حملہ کی کوئی اطلاع وصول نہیں ہوئی ہے۔ اسکول سرٹفکیٹ کے مطابق کبیر نابالغ ہے اور اُس کا کیس جوینائل کورٹ کے دائرۂ کار میں آتا ہے، جو پڑوسی ضلع بردوان میں واقع ہے اور کبیر کا کیس وہاں رجوع کرنا چاہئے لیکن وسائل کے فقدان کے سبب یہ کیس ہنوز ویسٹ بردھامن (آسنسول) کورٹ میں زیردوراں ہے۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) کی ٹیم نے اپنے نائب صدر ایڈوکیٹ شرف الدین احمد اور ایس ایم انور حسین (سابق صدر اے ایم یو ایس یو جو کارواں گروپ کے سربراہ بھی ہیں) نے آسنسول کا دورہ کیا اور کبیر کی ماں سونی خاتون جو خادمہ کے طور پر کام کرتی ہیں، اُن کو تمام تر ضروری مدد کا یقین دلایا۔ تحت کی عدالت میں کبیر کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ افتخار نے کہا کہ شرف الدین احمد نے ان سے درخواست کی کہ کبیر کے کیس کو جوینائل کورٹ برداون میں پیش کیا جائے اور وعدہ کیا کہ ایس ڈی پی آئی اس کیس کے تمام تر اخراجات برداشت کرے گی۔ انور حسین نے بتایا کہ کبیر کے فیملی ممبرز اور پڑوسیوں سے معلوم ہوا تو واقعی حیرت ہوئی کہ کوئی بھی ملی تنظیم اس فیملی کی کسی بھی قسم کی اخلاقی تائید کیلئے ان سے ربط میں نہیں آئی ہے۔