مرکز کے 10 فیصد اور مسلمانوں کو 4 فیصد تحفظات پر سپریم کورٹ کی دستوری بنچ پر سماعت

,

   

6 ستمبر کو ابتدائی سماعت، 13 اور 14 ستمبر کو دلائل پیش کئے جائیں گے، 4 وکلاء بحیثیت نوڈل ایڈوکیٹ مقرر
( تلگوریاستوں میں 4 فیصد تحفظات پر 17سال بعد سماعت)

حیدرآباد۔/31 اگسٹ، ( سیاست نیوز) سپریم کورٹ کی دستوری بنچ نے مرکزی حکومت کی جانب سے معاشی طور پر پسماندہ طبقات کو 10 فیصد تحفظات اور متحدہ آندھرا پردیش میں سماجی اور معاشی پسماندگی کی بنیاد پر مسلمانوں کو 4 فیصد تحفظات کی فراہمی پر 13 اور 14 ستمبر کو سماعت کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف جسٹس یو یو للت ، جسٹس دنیش مہیشوری، جسٹس ایس رویندر بھٹ، جسٹس بی ایم ترویدی اور جسٹس جے بی پارڈی والا پر مشتمل 5 رکنی دستوری بنچ نے دونوں تحفظات کے مقدمہ کی سماعت کیلئے 6 ستمبر کی تاریخ مقرر کی ہے اور اسی دن سماعت کے طریقہ کار کا تعین کیا جائے گا جبکہ 13 ستمبر سے دلائل کی سماعت ہوگی۔ مسلمانوں کو سماجی اور معاشی پسماندگی کی بنیادوں پر 2005 میں متحدہ آندھرا پردیش میں فراہم کئے گئے تحفظات میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ آیا دستور کی دفعات 15 اور 16 کے تحت مسلمانوں کو سماجی اور تعلیمی پسماندگی کی بنیاد پر تحفظات فراہم کئے جاسکتے ہیں۔ دوسرے مقدمہ میں مرکز نے معاشی طور پر پسماندہ طبقات کو 10 فیصد تحفظات کا جو فیصلہ کیا ہے اس کی دستوری اہلیت کا 2019 میں کی گئی 103 ویں دستوری ترمیم کی روشنی میں جائزہ لیا جائے گا۔ بنچ نے دونوں ایک دوسرے سے مربوط مقدمات کو بیک وقت سماعت کیلئے قبول کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت کے تحفظات پر سماعت پہلے ہوگی اس کے بعد آندھرا پردیش کے مسلم تحفظات کا جائزہ لیا جائے گا۔ دستوری بنچ نے دونوں مقدمات میں یکساں امور کا جائزہ لینے اور بنچ سے اعانت کیلئے 4 وکلاء کو بحیثیت نوڈل ایڈوکیٹ مقرر کیا ہے جن میں شاداں فراست، نچیکیتا جوشی، محفوظ نازکی اور کانو اگروال شامل ہیں۔ چار وکلاء مباحث میں فریقین کے وکلاء کی جانب سے پیش کئے جانے والے دستاویزات کا جائزہ لیں گے۔ دستوری بنچ نے مزید دو مقدمات کو بھی سماعت کیلئے قبول کیا تاہم فیصلہ کیا کہ تحفظات سے متعلق مقدمات کی سماعت پہلے ہوگی۔ سپریم کورٹ میں معاشی طور پر پسماندگی کی بنیاد پر تحفظات کی فراہمی اور متحدہ آندھرا پردیش میں تمام مسلمانوں کو پسماندہ قرار دینے کے دستوری جواز کو چیلنج کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ آندھرا پردیش ہائی کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے حکومت کی جانب سے فراہم کردہ مسلم تحفظات کو غیر دستوری قرار دیا تھا۔ عدالت نے حکومت کی جانب سے سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات کو تحفظات کی فراہمی سے متعلق اختیارات کو دستور کی دفعات 15(4) اور 16(4) کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا تھا۔ ہائی کورٹ نے تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں تحفظات کو کالعدم قرار دیا۔ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو چیلنج کرتے ہوئے 19 پٹیشن دائر کی گئی ہیں جن میں موجودہ دونوں تلگو ریاستوں کی حکومتوں کی پٹیشن بھی شامل ہیں۔ متحدہ آندھرا پردیش میں روزگار اور تعلیم میں مسلمانوں کو 4 فیصد تحفظات پر عمل آوری سپریم کورٹ کے عبوری احکامات کے تحت جاری ہیں اور دستوری بنچ کے قطعی احکامات پر تحفظات کی برقراری کا انحصار رہے گا۔ تحفظات کی برقراری کے حق میں جو 19 پٹیشن دائر کی گئیں ہیں ان میں جمعیۃ العلماء ہند ، وسیم اکرم، سلطان العلوم ایجوکیشن سوسائٹی شامل ہیں۔ر