مرے ہوئے کو کوئی قتل کر نہیں سکتا

   

طلاق ثلاثہ بل … شریعت میں مداخلت
مسلم خواتین سے پہلے گھر والی کی فکر کریں

رشیدالدین
نریندر مودی حکومت کی دوسری میعاد کا آغاز ہجومی تشدد میں مسلمانوں پر حملہ سے ہوا تو دوسری طرف پارلیمنٹ میں طلاق ثلاثہ بل کے ذریعہ شریعت پر حملہ کیا گیا۔ مسلمانوں اور ان کی شریعت پر حملہ کے ذریعہ حکومت اپنے عزائم آشکار کرچکی ہے ۔ سنگھ پریوار نے 2024 ء تک ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کا جو منصوبہ بنایا ہے، اس سمت میں پیشرفت کی جارہی ہے۔ ہجومی تشدد کا مقصد خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرتے ہوئے مسلمانوں میں دوسرے درجہ کے شہری ہونے کا احساس پیدا کرنا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب حوصلے پست ہوجائیں تو مسلمان مسجد اور شریعت کے تحفظ کے لئے آواز اٹھانے کی ہمت نہیں کریں گے۔ سازش یہی ہے کہ جان ومال کے نقصان کے ذریعہ عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا جائے تاکہ ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری میں رکاوٹ نہ رہے ۔ مودی کی پہلی میعاد میں شروع ہوا یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ جس وقت مودی حلف لے رہے تھے ، اسی وقت بھی ہجومی تشدد کا واقعہ پیش آیا ۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ہجومی تشدد کے واقعات ہندوتوا ایجنڈہ سے مربوط ہیں۔ شریعت میں مداخلت کے ذریعہ ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی راہ ہموار کرنا اصل سازش ہے۔ لوک سبھا میں طلاق ثلاثہ بل کو منظوری دے دی گئی۔ پہلی میعاد میں بھی دو مرتبہ یہ بل لوک سبھا میں منظور کیا گیا تھا لیکن راجیہ سبھا میں عدم منظوری کے سبب قانون کی شکل اختیار نہ کرسکا۔ دوسری میعاد کے پہلے اجلاس میں بل کو دوبارہ منظوری دی گئی اور اب راجیہ سبھا میں اپوزیشن کا امتحان ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ حکومت کے پاس انسانی جانوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ہجومی تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لئے ٹھوس قدم اٹھانے سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت دی تھی لیکن اس کے تدارک اور خاطیوں کو سزا کے لئے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ برخلاف اس کے مسلم خواتین سے ہمدردی کے نام پر شریعت میں مداخلت کی جارہی ہے۔ حکومت کو مسلم خواتین سے واقعی ہمدردی ہو تو پہلے ہجومی تشدد کے خلاف قانون سازی کرتے ہوئے خواتین کو بے سہارا ہونے سے بچائیں۔ ہجومی تشدد کی ہلاکتیں طلاق جیسے سماجی جرم سے زیادہ سنگین ہیں۔ حکومت ایسا ہرگز نہیں کرے گی کیونکہ ہجومی دہشت گرد سنگھ پریوار کے مقاصد کی تکمیل کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے طلاق ثلاثہ کو پہلے ہی کالعدم قرار دیا ہے۔ جس چیز کا قانونی طور پر وجود نہ ہو، اسے فوجداری جرم کے دائرہ میں شامل کرتے ہوئے تین سال کی سزا مقرر کرنا کہاں کا انصاف ہے ۔ شوہر کو جیل بھیج کر کیسے توقع کی جائے گی کہ وہ شخص اس خاتون کے گزارے کی رقم ادا کرے گا جس کی شکایت پر جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچ گیا۔ طلاق اسلام میں ناپسندیدہ عمل ہے اور اس حق کے استعمال کے لئے کئی پابندیاں ہیں۔ سماجی برائیوں کا خاتمہ صرف قوانین سے ممکن نہیں ہے ۔

اگر قوانین ہی سب کچھ ہوتے تو جرائم کی شرح میں روز افزوں اضافہ نہ ہوتا۔ مسلم خواتین سے ہمدردی سے قبل حکومت کو 30 لاکھ سے زائد ان ہندو خواتین کی فکر کرنی چاہئے جن کے شوہروں نے انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے، انہیں طلاق بھی نہیں دی گئی تاکہ وہ اپنا نیا گھر بسا سکے۔ انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی نے بارہا عوام سے سوالیہ انداز میں مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری مسلم بہنوں کو انصاف ملنا چاہئے کہ نہیں ؟ مودی نے جب جب یہ الفاظ ادا کئے اور پارلیمنٹ میں جب بھی بل پیش ہوا اور وزراء کی جانب سے خواتین سے انصاف کی دہائی دی گئی تو یقیناً کسی آشرم میں بے سہارا کی طرح زندگی بسر کرنے والی ایک خاتون کا دل ضرور رویا ہوگا۔ جس خاتون کو وزیراعظم کی قیامگاہ میں ہونا چاہئے ، وہ در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ آخر جشودابین کا قصور کیا ہے کہ وہ انصاف سے محروم ہیں۔ مسلم خواتین کو انصاف دلانے سے قبل نریندر مودی اپنی گھر والی کو اپنالیں۔ مثل مشہور ہے کہ نیک کام کا آغاز گھر سے ہونا چاہئے لیکن یہاں تو گھر والی کی فکر نہیں غیروں سے ہمدردی کی جارہی ہے۔ گھر والی کی گھر واپسی آخر کب ہوگی ؟ مودی حکومت مسلم خواتین سے ہمدردی کا ڈرامہ بند کریں کیونکہ اسلام میں خواتین کو جو مقام دیا گیا ہے، دنیا کا کوئی قانون اس کی مثال پیش نہیں کرسکتا۔ چند آزاد خیال ، اسلام بیزار اور دین سے نابلد خواتین کا سہارا لے کر اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی اور شادی کے بغیر خواتین سے رشتوں جیسے سنگین سماجی جرائم کو جائز قرار دیا ہے لیکن مودی حکومت نے سپریم کورٹ کے احکامات کو چیلنج کرتے ہوئے بے حیائی کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ کسی بھی مذہب میں اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ نریندر مودی کو سماج میں برائیوں کی حوصلہ افزائی کی فکر نہیں جبکہ شریعت میں مداخلت کے لئے بے قابو ہورہے ہیں۔ لوک سبھا میں اکثریت کی بنیاد پر بی جے پی نے بل کو کامیاب کرلیا۔ کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں میں مخالفت ضرور کی لیکن واک آؤٹ کے ذریعہ بآسانی بل کی منظوری کی راہ ہموار کی۔ بہت کم پارٹیاں ایسی تھیں جنہوں نے نہ صرف بل کی مخالفت میں ووٹ دیا بلکہ لمحہ آخر تک اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوںکو ہندو ووٹ بینک بچانے کی فکر لاحق ہوچکی ہے۔ لہذا وہ کھل کر مسلمانوں کے حق میں اظہار خیال سے گریز کر رہے ہیں۔ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو بیک وقت خوش رکھنا چاہتے ہیں۔ تلنگانہ اور آندھراپردیش کی برسر اقتدار جماعتوں میں ٹی آر ایس کا موقف بل کے حق میں دیکھا گیا جبکہ وائی ایس آر کانگریس نے مخالفت کی۔ مسلمانوں کی ہمدردی کے دعوے کرنے والی ٹی آر ایس ایوان سے غیر حاضر رہی۔ غیر حاضری کا مطلب حکومت کی درپردہ تائید کرنا ہے ۔ تلنگاہ میں بی جے پی کی سرگرمیوں میں اضافہ سے ٹی آر ایس خوفزدہ دکھائی دے رہی ہے۔

راجیہ سبھا میں بی جے پی کو اکثریت حاصل نہیں ، لہذا کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کا امتحان رہے گا۔ وہاں محض برائے نام احتجاج اور واک آؤٹ سے کام نہیں چلے گا۔ تمام جماعتوں کو بل کی شدت سے مخالفت کرتے ہوئے منظوری سے روکنا ہوگا۔ اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ بی جے پی کی حلیف جنتا دل یونائٹیڈ طلاق ثلاثہ بل کے خلاف ہے۔ نتیش کمار کو اقلیتوں سے اپنی ہمدردی کا ثبوت واک آؤٹ کے ذریعہ نہیں بلکہ بل کی مخالفت میں ووٹ کے ذریعہ دینا پڑے گا۔ شریعت پر حملوں کا سلسلہ متواتر جاری ہے لیکن مسلمان قوم بے حسی کے آخری درجہ میں ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ شریعت کے تحفظ سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس معاملہ میں صرف مذہبی اور سیاسی قیادتوں پر انگشت نمائی کرنا اس لئے بھی درست نہیں ہوگا کیونکہ جب قوم بے حس ہوجائے تو پھر کوئی بھی اسے خواب غفلت سے بدار نہیں کرسکتا۔ چند ایک قائدین ایسے ہیں جو مسلسل اپنی آواز اٹھا رہے ہیں جبکہ باقی قیادت کے دعویدار مصلحتوںکا شکار ہیں۔ اگر یہی حالات رہے تو طلاق ثلاثہ کے بعد دیگر شرعی قوانین کو نشانہ بنایا جائے گا ۔ بابری مسجد تو پہلے ہی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلتی دکھائی دے رہی ہے ۔ ثالثی کمیٹی کے نام پر مندر کی تعمیر کا منصوبہ ہے۔ ہجومی تشدد ، رام مندر کی تعمیر اور شریعت میں مداخلت یہ ایسے ہتھیار ہیں جن کے ذریعہ مسلمانوں کو اکثریتی فرقہ کے تسلط کو قبول کرنے پر مجبور کرنے سازش کی گئی ہے۔ اس سازش کا مقابلہ بے حسی کے خاتمہ کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے ۔ ہر شخص کو اپنے طور پر حصہ داری ادا کرنی ہوگی۔ بجائے اس کے کہ قیادتوں پر مکمل انحصار کیا جائے ۔ اسی دوران امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کشمیر کے مسئلہ پر ثالثی کا پیشکش کرتے ہوئے مودی کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ عمران خاں سے ملاقات کے موقع پر ٹرمپ نے کہا کہ نریندر مودی نے مسئلہ کشمیرکے حل کے لئے ان سے ثالثی کی گزارش کی تھی۔ یہ بیان امریکہ کے کسی معمولی عہدیدار کا نہیں بلکہ صدر کا ہے جنہوں نے میڈیا کے روبرو یہ بات کہی۔ ٹرمپ کے بیان پر مودی نے آج تک ردعمل ظاہر نہیں کیا اور وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کے ذریعہ تردید کی گئی۔ اگر مودی نے واقعی گزارش نہیں کی تھی تو انہیں پارلیمنٹ سیشن میں بیان دیتے ہوئے ٹرمپ کے جھوٹ کو بے نقاب کرنا چاہئے ۔ امریکی صدر کے بیان سے عوام میں بے چینی ہے اور یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ مودی نے کشمیر کو متنازعہ مسئلہ قبول کرلیا ہے۔ بی جے پی کے منشور میں مقبوضہ کشمیر کو واپس لینے کی بات کہی گئی لیکن گزشتہ پانچ برسوں میں مودی اس وعدہ کو بھول گئے ۔ صرف انتخابات کے وقت کشمیر کا مسئلہ یاد آتا ہے۔ مودی کی خاموشی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے اور مبصرین کے مطابق کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ورنہ مودی ٹرمپ کی تردید کرنے سے خوفزدہ کیوں ہیں؟ منظر بھوپالی نے مسلمانوں کی بے حسی پر کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے ؎
ہماری قوم تو مردہ ہے اک زمانے سے
مرے ہوئے کو کوئی قتل کر نہیں سکتا