دپنکا کپور
ملک کے تمام ممتاز اور مقبول ترین اخبارات نے صفحہ اول پر نمایاں سرخیوں کے ساتھ یہ خبر شائع کی کہ مودی حکومت نے یکم اکٹوبر 2024 ء سے اقل ترین اُجرت میں بڑے پیمانہ پر اضافہ کیا ہے اور اضافہ شدہ اُجرت مزدوروں کو دی جائے گی۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے یا اس خبر کی سچائی معلوم کی جائے تو یہ بات آشکار ہوجاتی ہے کہ حکومت نے جو اضافہ کیا ہے وہ اُجرت میں اضافہ نہیں ہے بلکہ اس نے مہنگائی بھتہ میں اضافہ کیا ہے۔ جہاں تک مہنگائی بھتہ کا سوال ہے صنعتوں سے متعلق آل انڈیا کنزیومر پرائس انڈیکس کے مطابق اس میں ہر 6 ماہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ اخبارات نے جو خبر شائع کی ہے وہ بالکلیہ غلط ہے، اگر مودی حکومت نے ان اخبارات کو مذکورہ شکل میں خبر فراہم کی ہے تو یقینا وہ اس کی دھوکہ دہی ہے۔ آپ کو حقیقت سے واقف کرواتے ہیں کہ غیر ماہر زرعی مزدوروں کی تنخواہوں یا اُجرت میں یومیہ صرف 3 روپئے کا اضافہ ہوا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ مہارت نہ رکھنے والے زرعی مزدوروں کی اُجرتیں پہلے 497 روپئے فی یوم ہوا کرتی تھیں، اب اس میں یومیہ 3 روپئے کا اضافہ کیا گیا اس طرح اب اِن کی یومیہ اُجرت 500 روپئے ہوگی۔ دوسری جانب نیم مہارت، مہارت اور اعلیٰ مہارت کے حامل مزدوروں کی اُجرت میں یومیہ صرف 4 روپئے کا اضافہ کیا گیا۔ واضح رہے کہ مرکزی حکومت کے تحت چلائی جانے والی صنعتوں میں کام کرنے والے نیم ماہر مزدوروں کی اُجرت میں 5 روپئے اور مہارت کے حامل مزدوروں کی اُجرتوں میں 6 روپئے اور اعلیٰ مہارت کے حامل مزدوروں کی اُجرتوں میں یومیہ 7 روپئے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس اخبارات نے غیر ضروری طور پر اس معمولی سے اضافہ کو ایک طلسم کے طور پر اور سنسنی خیز انداز میں پیش کیا ہے اور ایسا تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اِن کی اُجرتوں میں اضافہ ہوگیا ہے جبکہ وہ اضافہ نہیں مہنگائی بھتہ ہے اور اس مہنگائی بھتہ میں بھی یومیہ 3، 5، 6 اور 7 روپئے کا اضافہ ہوا ہے۔ مودی حکومت کی اس دھوکہ دہی کو اچھی طرح نہ سمجھنے کے نتیجہ میں خود مزدور بھی اس خبر کو بڑے پیمانہ پر سوشل میڈیا پر شیئر کررہے ہیں۔ گزشتہ نصف سال کے اوسط افراد زر یا مہنگائی کے مطابق مرکزی حکومت کے تحت کام کرنے والی صنعتوں اور تعمیراتی شعبہ کے غیر ماہر مزدوروں کو یومیہ 783 روپئے حاصل ہوں گے جبکہ نیم ماہر مزدوروں کی یومیہ اُجرت 868 روپئے ہوگی۔ اس کے برعکس ماہر مزدوروں یا ورکروں کو یومیہ 954 روپئے اُجرت دی جائے گی جبکہ اعلیٰ مہارت کے حامل مزدوروں کو یومیہ 1035 روپئے حاصل ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انھیں ماہانہ بالترتیب 20358 روپئے، 22568، 24804 روپئے اور 26910 روپئے تنخواہ ملے گی۔ قبل ازیں نئی مقرر کردہ چیف منسٹر دہلی آتشی نے بھی اس طرح کا اعلان کیا اور کہاکہ حکومت دہلی نے مہارت کے حامل، نیم ماہر اور مہارت کے حامل مزدوروں کی اُجرت میں یکم اپریل سے اضافہ کیا ہے۔ دہلی حکومت کا اس میں کسی طرح کا کوئی کردار نہیں ہے کیوں کہ اُجرتوں میں اضافہ ایک معمولی اقدام ہے۔ آپ کو یاد دلادیں کہ اقل ترین اُجرتوں سے متعلق قانون 1948 ء کے مطابق مہنگائی بھتہ دینے کی جو قانونی دفعات ہیں اِن دفعات کے تحت مہنگائی بھتہ میں فطری طور پر ہر 6 ماہ میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ اضافہ ہر سال یکم اپریل اور یکم اکٹوبر کو ہوتا ہے۔ اس قانون کے مطابق 1957 ء میں پہلی مرتبہ 15 ویں انڈین لیبر کانفرنس میں اقل ترین اُجرت کے تعین کے عمل کا فیصلہ کیا گیا۔ اس فیصلہ کے مطابق ہر خاندان کے تین ارکان کو یومیہ 2700 کیالوریز غذا دی جانی چاہئے۔ ان میں میاں، بیوی اور دو بچے شامل ہیں۔ انھیں ہر سال 72 گز (میٹر) پارچہ دیا جانا چاہئے۔ اس کے علاوہ چار افراد کے لئے کرایہ کا ایک کمرہ چاہئے تاکہ وہ اس میں قیام کرسکیں اور 20 فیصد حصہ (اُجرت) میں شامل کیا گیا تاکہ اس کے ذریعہ فیول چارج کی پابجائی کی جاسکے۔ 1962 ء میں سپریم کورٹ نے رابٹا کورس کیس میں 25 فیصد کے حساب سے اقل ترین اُجرت میں اضافہ کیا جس میں عید و تہوار بھی شامل ہیں۔ جہاں تک مہنگائی بھتہ کا سوال ہے یہ اقل ترین اُجرتوں کا کوئی حصہ نہیں ہے بلکہ مہنگائی بھتہ مہنگائی (افراط زر) کے حساب سے دیا جاتا ہے اور اس بارے میں آل انڈیا کنزیومر پرائس انڈیکس فار انڈسٹریز کے ذریعہ یا اس کے توسط سے فیصلہ کیا گیا اور اس کا فیصلہ لیبر بیورو شملہ نے کیا جو ہر 6 ماہ میں افراط یا مہنگائی کا ڈیٹا دیتا ہے۔ اس کے تین مراکز اترپردیش میں بھی کام کرتے ہیں۔ یہ سب پہلے کھانے پینے یا غذائی اشیاء جیسے دالوں، تیل، آٹا، چاول، سبزیوں، مصالحوں وغیرہ کی بازاری قیمت سے حاصل کرتے ہیں اور ان ہی بازاری قیمتوں کی بنیاد پر 6 ماہ کا اوسط نکالتے ہیں۔ اس کے بعد ہی اس پر اس انڈیکس کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور پھر اس کے ذریعہ مزدوروں کے لئے مہنگائی بھتہ کا تعین کیا جاتا ہے۔ آپ کو ایک اور اہم بات بتادیں کہ حکومت کا جو کردار ہے وہ یہ ہے کہ ہر 5 سال میں اقل ترین اُجرت کا جائزہ لے اور صنعتوں کو اس ضمن میں ہدایات جاری کرے۔ اقل ترین اُجرتوں سے متعلق قانون میں 19 جنوری 2017 ء کو مرکزی حکومت نے ترمیم کی، قانون اقل ترین اُجرتوں کے سیکشن 3 کے مطابق ہر 5 سال میں اقل ترین اُجرت کا جائزہ لینے اور اس پر نظرثانی کرنا لازمی ہے جس کے تحت 2022 میں مرکزی حکومت کے تحت کام کرنے والی مختلف صنعتوں میں خدمات انجام دے رہے مزدوروں کی اُجرتوں پر نظرثانی کی جانے والی تھی لیکن دو سال گزر جانے کے باوجود نظرثانی نہیں کی گئی۔ اس معاملہ میں ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کی حالت انتہائی ابتر ہے۔ یوگی حکومت نے اقل ترین اُجرتوں پر 2019 ء سے کسی قسم کی کوئی نظرثانی نہیں کی۔ اسمبلی میں اس مسئلہ پر مختلف ارکان اسمبلی کی جانب سے پوچھے گئے سوالات پر متعلقہ وزیر کا کہنا تھا کہ اقل ترین اُجرتوں پر نظرثانی کیلئے بہت جلد ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی اور حکومت اس پر عمل آوری کرے گی لیکن افسوس کہ آج کی تاریخ تک ’’بہت جلد‘‘ نہیں آیا، نتیجہ میں ریاست اترپردیش میں اقل ترین اُجرت اگر مرکز سے تقابل کیا جائے تو تقریباً نصف ہے۔ بی جے پی کی زیرقیادت موجودہ حکومت نے صورتحال کو مزید ابتر بنادیا ہے۔ چار سال قبل لیبر قوانین کو منسوخ کرکے پارلیمنٹ میں لیبر کوڈس (ضابطہ اخلاق) منظور کئے گئے۔ ان کے ضوابط بھی بنائے گئے۔ اور اب مودی حکومت ان پر عمل آوری کے لئے کام کررہی ہے۔ حکومت ہند محکمہ لیبر کی ٹیم ہر ریاست کا دورہ کرتے ہوئے حکومت ہند کی جانب سے بنائے گئے قواعد و ضوابط کے مطابق ریاستوں کے قواعد و ضوابط کا جائزہ لے رہی ہے۔ بہرحال مودی حکومت اقل ترین اُجرتوں میں اضافہ کے بارے میں جھوٹا پروپگنڈہ کررہی ہے۔ ورکروں کو اس دھوکہ سے چوکس رہنا چاہئے اور دستور نے انھیں ایک قابل احترام باوقار زندگی کا جو حق دیا ہے اس کے تحفظ کے لئے آگے آنا چاہئے۔